بھٹو کی بیٹی کا سفر زیست
کسے خبر تھی کہ لاڑکانہ کے ایک صاحب ثروت اور بڑے زمیندار کے گھر جنم لینے والی بچی آنے والے وقتوں میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا تاج سر پر سجائے گی اور یہ بھی کسی کو خبر نہ تھی کہ یہ لڑکی اپنی اوائلی عمری میں باپ کی شہادت کا صدمہ برداشت کرے گی اور عین جوانی میں سگے بھائی کے قتل کا صدمہ برداشت کرے گی۔ بلاشبہ ان دل سوز اور کٹھن مراحل نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک عہد ساز شخصیت بنادیا۔ بچپن اور لڑکپن ذوالفقار علی بھٹو جیسے شفیق باپ کی زیر نگرانی گزارا اور جوانی میں بھی اپنے باپ کے ساتھ پابند سلاسل رہی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تکالیف اور پریشانیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کا حصہ بن گئیں۔ محترمہ کا منصب ان عظیم شخصیات میں سے ہے جو خود تاریخ لکھتے ہیں اور ان کی بھی تاریخ رقم ہوتی ہے ۔
بے نظیر بھٹو اپنی رقم کر دہ سوانح حیات دخترِ مشرق ( مشرق کی بیٹی) میں قلمبند ی کر تی ہیں کہ میری سیاسی افکار کی اساس شہید بھٹو کے وہ افکار ہیں جو زمین مخلوق خدا، مظلوم او رغیر مراعات یافتہ عوام کے لیے زندگی کا پیغام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقد ر بنایا ہے ۔ محترمہ کی زند گی کا اختصار سے جائز ہ لیا جا ئے تو اس عشق کی تکرار ان کی اپنی زندگی پر غالب وحاوی نظر آتی ہے۔ وہ حکو مت میں ہو ں تو غریبو ں کے بچو ں کو گو د میں لے کر پولیو کے قطر ے پلا تی نظر آتی تھیں اور اقتدار سے باہر ہو ں تو سانحہ کارساز کے بعد نو جو ان شہیدوں کے بچو ں کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی نظر آتی تھین ۔ اپنی سار ی زندگی انہو ں نے غریبو ں کے لیے جی کر دکھا دی ۔ بلا امتیاز کہ وہ وزیراعظم ہیں یا قائد حزب اختلاف ۔ قائد باپ کی بیٹی ہر دور کی قائد نظر آتی تھیں اور آج بعد از شہادت فضا ان کے نام سے معطر معطر ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھیں جو عوام کے انتخاب کے ذریعے دوبارہ وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر پہنچیں اور جبر وستم کی قوتیں انہیں جسمانی طورپر سیاسی افق سے علیحد ہ کرتیں تب بھی تیسری بار یقیناً مادر وطن کی منتخب وزیر اعظم ہوتیں ۔شاید ہم اس قابل ہی نہیں تھے کہ اس کی قدر کر سکتے یا قدرت نے ہماری بے قدری کی وجہ سے وہ ہم سے چھین لی وہ اگر کسی اور ملک میں پیدا ہوئی ہوتی ہو سکتا ہے آج بھی زندہ ہوتی اور دنیا اس کی فہم و فراست سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی وہ پاکستان میں پیدا ہوئی مگر اس کے باوجود دنیا نے درجنوں اعزازات سے نوازکر دراصل ان اعزازات کو اعزاز بخشا ذراغور کیجیئے دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم ہونے کے علاوہ کتنے ایوارڈ بی بی کو حاصل ہوئے۔1۔ گیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں 1996میں دنیا کی 50عظیم خواتین میں شامل ۔2۔ انسانی حقوق کی پاسداری پر برن کراوسکی ایوارڈ 1998۔3۔ ریڈ کلف ایوارڈ 1989۔4۔ مراکش کا سب سے بڑا سول ایوارڈ 1989۔5۔ یو نی نیم کی طرف سے نیول فائونڈیشن ایوارڈ 1990۔6۔ گوفوشیون آزیری ایوارڈ ٹوکیو 1996۔7۔ بوسینا کا صدارتی ایوارڈ 1996۔8۔ لاس اینجلس شہر کا اعزازی چابی 1995۔9۔ امریکہ کی طرف سے انٹرنیشنل سائنس میڈل 1995۔10۔ لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی طرف سے میڈل 1995۔11۔ ہاروڈ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری 1995۔12۔ فلپائن کی یونیورسٹی کی طرف سے ڈائریکٹوریٹ کی اعزازی ڈگری 1996۔13۔ ٹوکیو یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری 1996۔14۔ کرغستان کی سٹیٹ نیشنل یونین کی طرف سے اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995۔15۔ قازقستان کی یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995۔16۔ ٹوکیو ایلومینی ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر شپ1996۔17۔ امریکن بائیو گرافیکل کی طرف سے ملینٹم ایوارڈ 1996۔18۔ امریکن اکیڈمی ایوارڈ2000۔اور بہت سے عالمی اعزازات کی حامل محترمہ بینظیر بھٹو واقعی ہماری اوقات سے ماوریٰ تھیں۔ وہ کسی اور دنیا کیلئے ہی بنی تھیں اور اسی لیے قدرت نے ہمیں ان سے محروم کردیا جب تک وہ پاکستان کا حصہ تھیں وہ کونسا ظلم کونسا ستم ہے جو ہم نے ان پر نہیں ڈھایا ۔ ابھی نوجوانی اور زمانہ طالب علمی کی بے فکرعمر تھی کہ ان سے عظیم باپ چھین لیا ۔ بوڑھی ماں کے ساتھ جیلوں میں ڈالا ۔ پہلی بار وہ 18اکتوبر 2007ء کو کراچی اتریں تو محبان اور جیالوں کا سیلاب امڈ آیا اور ابھی محترمہ راستے میں ہی تھیں تو پہلے سے نصب شدہ بم پھٹ گیا وہ خود تو ٹرک کے محفوظ حصے میں ہونے کی وجہ سے بچ گئیں مگر 250جیالے اپنی قائد پر قربان ہوگئے ۔ سینکڑوں عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے اس اندوہناک واقعہ نے بھی دکھوں کی پلی بی بی کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ وہ نئے حوصلہ اور جذبے سے عوا م کو حقوق دلانے پر کمر بستہ ہوگئیں ۔ اپنا صدمہ بھول کر اورسکیورٹی کے خدشات کو نظرانداز کرکے میدان میں نکل آئیں اور پھر دشمن نے دوسرا وار راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کیا اس بار دشمنوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑ پہلے ایک ماہر نشانہ باز نے گولی ماری اور پھر خود کش دھماکہ کردیا ۔ 1969ء کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی اور عام انتخابات میں عوام نے بھٹو کو "قائد عوام"بنا دیا تو نوجوان بے نظیر بھٹو کو جمہویت اور عوام سے محبت ہونے لگی بھٹو شہید کے پھانسی کے موقع پر بھی محترمہ بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ہمراہ سہالہ پولیس ریسٹ ہائوس میں نظر بند تھیں ظلم کے اس انتہائی اقدا م پر بی بی کے بھائی تو صبر کا دامن چھوڑ گئے بی بی 2007ء میں وطن واپس آئیں تو ظالموں نے ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا لیکن جس طرح بھٹو کو مارنے سے پیپلز پارٹی یا جمہوریت ختم نہیں ہوئی اسی طرح بی بی کی شہادت سے ان کا نظریہ اور جمہوریت ختم نہیں ہوئی اور اب بی بی کی نشانی بلاول بھٹو زرداری اپنی عظیم ماں کا عظیم ورثہ سنبھالنے کیلئے تیار ہیں ۔