بالآخر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ’’سیاسی دھماکہ ‘‘ کر ہی دیا اس کے لئے انہوں نے قومی اسمبلی کے فورم کا انتخاب کیا وفاقی حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر کے حکومت اور اپوزیشن کو سرپرائز دیا بہر حال بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی وفاقی حکومت سے اچانک علیحدگی کے اعلان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے وفاقی حکومت بی این پی کے چار اراکان قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل، آغا حسن بلوچ ،حاجی ہاشم نوتیزئی اور ڈاکٹر شہناز بلوچ کی حمایت سے محروم ہو گئی ہے بی این پی کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی سے عمران خان کی مخلوط حکومت کو ’’دھچکا ‘‘ تو لگا ہے لیکن فوری طور عمران خان کی حکومت گرنے کا کوئی امکان نہیں ۔ عمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں 184ارکان کی حمایت حاصل تھی بی این پی کے 4ارکان کی حمایت سے محروم ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کو180ارکان کی حمایت حاصل ہے البتہ بی این پی کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی سے دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے کی اہمیت بڑھ گئی ہے سردار اختر مینگل نے اپنے’’ واپسی ‘‘کے آپشن کو کلوز نہیں کیا وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی افورڈ نہیں کر سکتے انہوں نے یہ کہہ کر اپنی واپسی کی گنجائش برقرار رکھی ہے حکومتی یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ ان کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی جس کا فوری طور کوئی اجلاس نہیں بلایا جا رہا فی الحال حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا فیصلہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے جس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو ا ہے حکومت کو بی این پی کی وفاقی حکومت سے الگ ہونے کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی وزیر اعظم کو اطلاع مل چکی تھی لہذا وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں پچھلے تین چا روز سے وزیر دفاع پرویز خٹک اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی بی این پی کے رہنمائوں سے ملاقاتیں ہو چکی تھیں ان ملاقاتوں میں حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی اور بی این پی کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ پر عمل درآمد کے لئے کچھ مہلت مانگی جا رہی تھی لیکن بی این پی کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ 6میں سے سے ایک مطالبہ پر عمل درآمد نہیں ہوا معاہدے پر عمل درآمد کے لئے 21ماہ انتظار کر لیا اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے بی این پی دبائو کے حربے کے طور پر حکومتی اتحاد سے الگ ہوئی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی اور بی این پی کے درمیان6نکاتی معاہدہ کا اہم نکتہ ’’لاپتہ‘‘ افراد کی بازیابی ہے جبکہ دیگر مطالبات میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ، وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا 6فیصد کوٹہ ، افغان مہاجرین کی واپسی ، صوبے میں نئے ڈیموں کی تعمیر ، وسائل کی تقسیم ، صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر سے متعلق مسائل ہیں حکومت اور بی این پی کے درمیان دوبار معاہدے ہوئے پہلا معاہدہ حکومت سازی کے وقت عمل میں آیا جب کہ دوسری بار صدارتی انتخاب کے وقت ہوا اس کے بدلے بی این پی نے قومی اسمبلی ، سینٹ ، صدارتی انتخاب اور بلوچستان حکومت میں ساتھ دیا ۔سردار اختر مینگل کو’’ انداز سیاست‘‘ اپنے 91سالہ والد سردار عطا اللہ مینگل سے ورثے میں ملا ہے۔ سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے وہ غیر لچک دار سیاست دان کی شہرت رکھتے ہیں سردار عطا اللہ مینگل کا شمار ذوالقار علی بھٹو کے دور کے بلوچستان کے قد آور رہنمائوں میں ہوتا ہے ان کے قد کاٹھ کے رہنما اکبر بگٹی اور غوث بخش بزنجو تھے غوث بخش بزنجو اور سردار عطااللہ مینگل نیشنل عوامی پارٹی میں رہے یہ جماعت کالعدم قرار دے دی گئی۔ بعد ازاں سردار عطاء مینگل اور غوث بخش بزنجو کا سیاسی راستہ خان عبد الولی خان سے جدا ہو گیا بلوچستان نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو سردار عطا اللہ مینگل میاں نواز شریف کے دور میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے وہ ہیں تو ڈیمو کریٹ ۔ ایک طرف وہ فیڈرل ازم پر یقین رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ان قوم پرست بلوچوں کی نمائندگی بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے۔سردار اختر مینگل ان ’’ لاپتہ بلوچوں ‘‘ کی وکالت تو کر رہے ہیں لیکن ان کو بندوق پھینکنے پر آمادہ کرنے میں بھی کوئی کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں سردار اختر مینگل اپنی سیاسی طبع افتاد کی وجہ سے کراچی میں جیل کاٹ چکے ہیں 4 سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے رکھی اور دبئی میں بیٹھ کر سیاست کرتے رہے بلوچستان مختلف قومیتوں پر مشتمل صوبہ ہے اس وقت سردار اختر مینگل کا شمار بلوچوں کے بڑے لیڈر کے طور ہوتا ہے سردار اختر مینگل نواز شریف دور میں 28مئی1998ء میں چاغی کے پہاڑ میں’’ ایٹمی دھماکہ‘‘ کی مخالفت کرنے پر ’’گرم پانیوں ‘‘ میں رہے ویسے بھی ان کی پارٹی کے اندر گروپ بندی نے انہیں وزارت اعلیٰ سے محروم کر دیا یہ بات قابل ذکر ہے سردار اختر مینگل سی پیک کے ثمرات پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں ایسی صورت حال میں سردار اختر مینگل کے ساتھ حکومت کا گزارہ کرنا خاصامشکل ہے سی پیک کا منصوبہ گیم چینجر اور پاکستان کی جان ہے ۔ 21 ماہ سے عمران حکومت سردار اختر مینگل کے’’ ناز نخرے‘‘ تو اٹھا رہی ہے لیکن اگر اب بات نہ بنی تو وہ مزید دیر تک سردار اختر مینگل کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی و زیر اعظم عمران خان نے بی این پی مینگل کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا فوری نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے اپنے ’’گھوڑے‘‘ دوڑا دئیے ہیں انہوںنے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کو حکومتی اتحاد میں واپس لانے کے لئے بلوچ رہنمائوں کو ٹاسک دے دیا ہے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سردار اختر مینگل سے پارلیمنٹ لاجز میں ملاقات کی ہے اور چیئرمین سینٹ نے پرویزخٹک کی سربراہی میں قائم مذاکراتی کمیٹی کا پیغام سردار اختر مینگل تک پہنچایا مذکراتی کمیٹی کی طرف سے پی ٹی آئی اور بی این پی کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ پر عمل درآمد کے کچھ مہلت مانگی ہے او رکہا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی ان سے جلد ملاقات کر کے مطالبات پر عمل درآمد کے حوالے سے شیڈول دے گی سردار اختر مینگل نے کہا کہ’’ میرے اختیار میں کچھ نہیں میں نے جو کرنا تھا کر لیا پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے جو فیصلہ کیا میں نے پارلیمان میں سنا دیا اب میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں،اب جو کچھ پیشرفت کرنا ہے حکومت کو کرنا ہے‘‘۔ گویا ایک بار پھر انہوں نے گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے ۔ سردار اختر مینگل جو ایک’’ غیر لچکدار‘‘ رویہ رکھنے والے لیڈر ہیں نے اپنی ’’ واپسی ‘‘کی گنجائش رکھی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024