محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آج 67ویں سالگرہ ہے‘ سالگرہ کی تقریبات جہاں جہاں بھی ہوں گی‘ وہاں کرونا کی وباء سے شہید ہونے والے تمام سیاسی کارکنوں اور پیپلزپارٹی جاںبحق ہونے والے سندھ کے صوبائی وزیر سمیت تمام پاکستانیوں کے لیے دعا ہوگی‘ محترمہ شہید بی بی اپنی سالگرہ کی ہر تقریب میں جسمانی طور پر تو نہیں البتہ اپنے خیالات‘ زریں افکار کے ساتھ شریک ضرور رہیں گی‘ آج ان کی سالگرہ ہے مگر پارٹی کرونا وباء کے باعث سادگی سے یہ تقریب منائے گی بلاشبہ محترمہ شہید بی بی اس ملک کے کروڑوں عوام کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ ہیں‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کیا تھیں اور اس ملک کے لیے ترقی کے کن کن شعبوں میں کام کر گئی ہیں‘ یہ سب آج ہمارے سامنے ہے اور عوامی خدمت کے بہت سے اعزاز ان کے پاس ہیں‘ وطن عزیز آج اپنے اندرونی اور بیرونی حالات کے باعث بحرانی کیفیت میں ہے‘ اور حکمران مصلحت پسند بنے ہوئے ہیں‘ محترمہ جب پہلی بار ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو ان کے پاس حکومت کاکوئی تجربہ نہیں تھا تاہم انہیں اسی دوران ملک کی سالمیت کے حوالے سے ایک اطلاع ملی کہ بھارت امریکہ اور اسرائیل پاکستان کے خلاف کسی مکروہ منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں‘ محترمہ نے اطلاع پاکر اپنے وزیر خارجہ کو ایک سخت پیغام دے کر بھارت بھیجا کہ اگر پاکستان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو دنیا ہمارا ردعمل دیکھے گی‘ محترمہ نے یہ پیغام بھجوا کر ملک کی فورسز کو ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا‘ ان کے اس جرأت مندانہ فیصلے کے باعث بھارت کیا امریکہ تک پریشان ہوگیا تھا‘ ہمیں آج بھی اس ملک کو محترمہ جیسی جرأت مند لیڈرشپ چاہیے‘ محترمہ کاسب سے پہلا اعزاز یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ریاست کی منتخب ہونے والی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں (1988-1990 اور 1993-1996) کے درمیان دوبار وہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں ان کی خوبی کیا تھی؟ سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ پاکستان کے معاشرے میں رچ بس کر سیاست کرتی تھیں‘ اخری بار جب وہ جلاوطنی سے وطن واپس پہنچیں تو کراچی میں ان کے جلوس پر کارساز کے قریب بم دھماکہ ہوا جس میں سینکڑوں کارکن شہید ہوئے‘ اس واقعہ کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ وہ خوفزدہ ہوجائیں گی مگر اگلے ہی روز وہ شہید ہونے والے کارکنوں کے لواحقین اور زخمی کارکنوں کے گھروں میں گئیں‘ ان کے بچوں کو گود میں اٹھا کر پیار کیا‘ یہ سب بچے شہید بی بی کی نظر میں بلاول‘ بختاور اور آصفہ ہی تھے‘ ضیاء دور میں ان کی سیاسی زندگی کی ابتداء تھی‘ قذافی سٹیڈیم میں ان پر ہونے والا پولیس تشدد آج بھی یاد ہے قذافی سٹیڈیم کی دہلیز پر محترمہ شہید بی بی اور بیگم نصرت بھٹو کے خون سے رنگین ہوگئی تھی‘ وہ جیلوں میں گئیں‘ قید تنہائی کاٹی‘ انہیں اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ملی‘ مگر اس کے باوجود بے پناہ حوصلہ دکھایا۔ آخری ملاقات میں بھٹو صاحب نے جو نصیحت کی تھی‘ تعلیم‘ صحت اور سماجی خدمت ان کے سیاسی اہداف تھے اور ساری عمر ان پر عمل کیا۔
بے نظیر بھٹو شہید نے A-Levels سے گزرنے کے بعد لیڈی مارگریٹ ہال کالج میں قانون کا مطالعہ کرنے کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ایل ایم ایچ کے بعد انہوں نے سینٹ کیتھرین کا مطالعہ کیا اور 1976 میں آکسفورڈ یونین کی صدر بن گئیں اس کے بعد، وہ پاکستان واپس آئیں اور پھر پاکستان کی سیاست میں کھو گئیں‘ اپنی قید کے بارے میں لکھتی ہیں''موسم گرما کی گرمی نے میرے سیل کو تندور میں بدل دیا. تھا چار سال کی قید کے بعد1984 میں، وہ رہا ہوئیں اور علاج کے لیے بیرون ملک گئیں دو سال کے بعد 1986 میں وطن واپس آئیں تو لاہور میں ایسا بے مثال استقبال ہوا کہ آج تک ایسا استقبال کسی سیاسی رہنماء کو نصیب نہیں ہوا‘ پہلی بار 1988 میں وزیراعظم بنیں اس وقت ان کی عمر 35 سال تھی صدر غلام اسحاق خان نے ان کی پہلی حکومت ختم کی لیکن عدالت میں دائر ریفرنس میں وہ اپنے فیصلے کا جواز نہیں دے سکے1993 میں، وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن 1996 ء میں اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ایک بار پھر جمہوریت پر شب خون مارا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے دور میں بنائی گئی معاشی پالیسی عوام کے لیے تھی۔ بیروزگاری اور افراط زر کے مقابلے کے لیے قابل قدر اقدامات اٹھائے 2007 میں، وطن واپس آکر ایک نیا سیاسی ویژن دیا اور کہا کہ ملک میں اب اعتدال پسندی اور جمہوریت کی قوتیں، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف غالب ہوں گی۔میں خوفزدہ نہیں ہوں۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آج سالگرہ ہے‘ کیسا اتفاق ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سالگرہ کے روز کبھی جلاوطن ہوئیں‘ کبھی قید تنہائی میں رہیں اور اسی طرح اسی جدوجہد میں ساری زندگی گزار دی؟
آج پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ ہے‘ ان کے تینوں بچوں بلاول بھٹو‘ آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے انسانی جذبات کیا ہوسکتے ہیں‘ کیا کوئی اس کا اندازہ کرسکتا ہے۔ آج ان کی شہید والدہ کی سالگرہ ہے اور باپ نیب کے اقدام کا سامنا کر رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38