ایک پروفیشنل ڈاکٹر کو عام طور پر لکھنے میںمہارت کم ہی ہوتی ہے۔ مگر رحمت علی رازی کی اس عارضی دنیا سے اچانک رخصتی ایک ایسا حادثہ تھا جس نے دل غم ناک اور آنکھیں پرنم کر دیں۔چین جانے سے قبل ہی میری بات ہوئی حسب ِ معمول انتہائی محبت بھرا مشفقانہ انداز گفتگو تھا۔ اس المناک خبر نے جذبات کی ترجمانی پر مجبور کیاکہ میں اس عظیم شخص اور پیرِ صحافت کے بارے میں اپنے جذبات قلم کی نذر کرسکوں۔میں پروفیسر ابرار اشرف علی کے ہمراہ چائنہ میڈیکل یونیورسٹی کی دعوت پر شنگھائی بطور مقررمدعو تھا کہ فون پر اس اندوناک خبر کے بارے میں میسج پڑھا تو یقین نہ آیادوبارہ تصدیق کی خبر کی درستگی پر یقین جانیے دل ہی بیٹھ گیا تقریباًتیس سالہ رفاقت کے لمحات گردش کرنے لگے۔پروفیسر ابرار اشرف پر بھی سکتہ طاری ہو گیاکہ اچانک کیا ہوا۔ اویس رازی کو دعائوں کا میسج کیا صبر کی دعا کی ، صبر کا کہنا تو آسان ہوتا ہے مگر جس سے باپ کی شفقت کا سایہ اٹھ گیا ہو اس غم کو وہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ باپ بھی رحمت علی رازی جیسا ہو۔ باپ بھی تھے دوست بھی تھے استاد بھی تھے جنہوں نے اولاد کی مثالی تربیت کی ۔چین میں قیام کے دوران کانفرنس کی مصروفیات کم اور رازی صاحب کا تذکرہ زیادہ ہوتا رہا۔ شنگیانگ کی جامع مسجد میں مغرب کی جماعت کے بعد فارغ ہوئے تو پروفیسر ابرار اشرف علی کہنے لگے کہ میں نے تو ایک دعا کی ہے وہ بھی رازی صاحب کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی۔ رازی صاحب نے تو لوگوں سے محبت کی اور دوست بنایااور دوستوں کو بھی ان سے قلبی لگائو تھا۔ وہ دوستی اور تعلق میں استقامت کے قائل تھے۔
رحمت علی رازی صاحب کا تعارف تین دہائی قبل ہمارے ایک بیوروکریٹ کلاس فیلودوست نے کروایاکہ ہر اتوار پر ناشتہ سے قبل ہم رازی صاحب کا کالم پڑھتے ہیںپھر ناشتہ کرتے ہیں کہ وہ اندر کی خبریں لکھتے تھے، اور انکی خبریںسچ بھی ثابت ہوتی تھیںہم بھی اتوار کے روز ان کے کالم کے شوقین ہوئے ا ور شہ سرخیوں کی بجائے اداریہ کے نیچے ان کے چھپے ہوئے کالم سب سے پہلے پڑھتے ۔نوے کی دھائی میں قربت کا موقع ملا جب اس وقت کے وزیر ِصحت نے پروفیشن کو تنگ کرنا شروع کیا۔ میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو معطل کردیا گیا ۔ پروفیسر محمود شوکت پروفیسر محمد امجد اور دوستوں کے ہمراہ 173-Rبلاک ماڈل ٹائون میں ملاقات ہوئی۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے رازی صاحب سے سرپرستی کی درخواست کی دوستوں نے دلائل کے ساتھ قائل کر لیا پھر میڈیکل پروفیشن اور ڈاکٹرز کی حمایت میں مسلسل کالمز لکھے کہ سب بحال ہو گئے ، اور وزیر موصوف نے 173-Rبلاک خود جا کر وضاحتیں کیں ۔ اس وقت سے میڈیکل پروفیشن رازی صاحب کی عظمت کا قائل اور ممنون ہے۔اگرچہ رازی صاحب کے دوستوں کی فہرست میں صحافی برادران کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹ سرفہرست تھے مگرشعبہ طب سے تعلق رکھنے والے مُحبین کی بھی کمی نہ تھی۔ اس طرح جب 2006-07میں کالج آف فزیشنز اینڈسرجنز پاکستان میں مطلق العنان غالب آئی تو رازی صاحب کے بے باک کالم نے سمت درست کرنے کا پیغام دیاجسکے نتیجے میں اعلی طبی تعلیم کے اس ادارے کی نہ صرف سمت درست ہوئی بلکہ ملکی اور بیرونِ ملک مثالی کار کردگی کی خبریں آنے لگیں۔رازی صاحب کی شخصیت صفات کا مجسمہ تھی۔انتہائی وضع دار سلیقہ شعار اور خوددار تھے دوستوں کے دوست اور دوستی نبھانے والوں میں شامل تھے خوشی اور غمی میں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں شامل ہوتے تھے۔مجھے یاد ہے 2007میں جب والدہ محترمہ کا انتقال ہوا توجولائی کی گرمی میں رازی صاحب دوستوں کے ہمراہ نہ صرف منڈی بہائوالدین پہنچے بلکہ سارا دن دل جوئی کرتے رہے ۔فی زمانہ ایسی وضع داری کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے ہر شخص دوسرے شخص کو کم اور موبائل پر وقت زیادہ دیتا ہے۔ رازی صاحب نے تعلق نبھانے کی مثالیں قائم کیں ،بے شمار غریبوں کا انہوں نے بھلا کیا، اپنے تعلقات ضرورت مندوں کی مدد کے لیے استعمال کیے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہماری قربت بڑھتی گئی ماڈل ٹائون ہو یا طاقت / عزم کا دفتر ان کی مہمان نوازی مثالی رہی۔ ان کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے رہتے تھے بڑی بڑی شخصیات کو ان کے دفتر آتے دیکھا۔تعلق اور محبت بڑھنے پر ایسا تعلق قائم ہوا کہ ہم ان کے فیملی ڈاکٹربن گئے۔رازی صاحب اور ان کے بھائی صادق طارق اور بیٹی کے آپریشن ہم نے کیئے، بطور مریض اور بطور اٹینڈنٹ ہمیشہ شائستگی اور نفاست دیکھی۔ ہسپتال کے قیام کے دوران کبھی شکایت نہ کی،ڈاکٹرز کو عزت کا مقام دیا۔ہسپتال کے قیام کی اچھی یادوں کا اظہار اپنے کالمز میں ہمیشہ کرتے ، اس طرح ڈاکٹرزکی حوصلہ افزائی ہوتی۔شاید اکثر دوستوں کو اس بات کا علم نہ ہوکہ رحمت علی رازی صاحب پکے اور سچے عاشقِ رسولﷺتھے۔آپ ﷺ کی محبت ان کے دل میں گھر کر چکی تھی۔ اکثر رات جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے۔صحافت کی مصروفیات بھی ہوتی تھیں مگر نمازوں کا ا ہتمام اور خاص طور آخری سالوں میں تہجد کی ہمیشہ پابندی کی۔ شعبہ صحافت میں اس مقام اور مصروفیات کے ساتھ آخرت کی فکر اور تیاری ایسی کمال صفت تھی جو بہت کم لوگوں میں ملتی ہے ۔ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس کے اعلی مقامات میں جگہ عطا فرمائیںآمین۔ان کے لواحقین خاص طور پر میرے محترم دوست ان کے برادر نسبتی خضر حیات گوندل عزیزم اویس رازی، عمررازی ، ہماری بیٹی اور بھابھی صاحبہ سمیت سب کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)
خدایا رحمت ِ کند این عاشقان ِپاک طینت را
انکے جانے کے بعد انکے لواحقین خاص طور پر عزیزم اویس رازی اور عمر رازی پر بھاری ذمہ داری آچکی لیکن ذاتِ باری تعالی کریم ذات ہے صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے ۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024