پاکستانی قوم اس بات پر کنفیوژن کا شکار ہے کہ پاکستان میں لوکل باڈیز کا نظام ناکام کیوں ہوا۔ پاکستان میں مارشل لاء لگے اور اور مارشل لاء حکومتوں میں بھی معیشت کے بہترین ماہرین تھے پھر عام آدمی کو معاشی ریلیف نہ مل سکا۔ ہمارا صدارتی نظام بھی ناکام ہوا۔ پارلیمانی نظام چند سالوں کے لیے چلتا ہے لیکن جب وزیراعظم اپنے منصب سے ہٹتا ہے تو سیدھا جیل میں جاتاہے۔ اصل میں یہ نظام کی ناکامی ہے ان لوگوں کی نہیں جنہیں سٹیرنگ پر بٹھایا جاتاہے۔ یہ سسٹم کی خرابی ہے۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار سے جانے کے بعد اب تک وطن واپس نہیں آ سکے ۔ عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا ہے۔ میں خود سینئر بیورو کریٹ رہا ہوں اور وزیر داخلہ رہا ہوں۔ میں نے نظام کو بہت قریب سے دیکھا ہے میں نے ان قومی سطح پر ہونے والی غلطیوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ ہم نے قومی مقاصد سے روگردانی کی ہے۔ میرے اس بارے میں کٹڑ خیالات ہیں۔ میری رائے میں قومی سطح پر ایک مصالحتی اور سچائی کمشن کے قیام کی ضرورت ہے اور اس کمشن کی سفارشات پر تو اس طرح عمل کرنے کے بعد ہی پھر ایک اچھا نظام وضع کر سکے گی اور حکمرانی کو بہتر بنا سکے گی۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ماضی میں ہمارا نظام صدارتی کیوں ناکام ہوا۔ میری یہ پختہ رائے ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا اور ہمیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑے گا اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو اقدامات کرنا ہوں گے ان اقدامات کے لیے ٹرمز آف ریفرنس وضع کرنا ہونگے ۔
غیر مستقل اور سیاسی محرکات پر اٹھائے جانے والے اقدامات قوم میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ سیاسی انتقام اور مخالف پر حاوی ہونے کے مقصد کے لیے اٹھایا جانے والا قدم قومی مقاصد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
حال ہی میں بھاری ملکی و غیر ملکی قرض لینے کی وجوہ اور ان قرضوں کے استعمال کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جو قرضوں کے بارے اعداد و شمار جمع کرے گا ۔ لیکن اس کمشن کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے کہ قومی مقاصد سے کہاں انحراف کیا گیا اور بیورو کریسی اور سیاسی قیادت نے کہاں قومی اثاثوں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس لیے ہمیں بہتر نتائج کے حصول کے لیے ایک قومی مصالحتی کمیشن کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے قومی مصالحتی اور سچائی کمشن کے قیام کے لیے سمجھوتہ کیا تھا لیکن کمشن نہیں بنایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم غیر سنجیدہ قوم ہیں اور ہم ماضی کی غلطیوں اور غلط حکمرانی کا جائزہ نہیں لینا چاہتے۔ ہم ماضی کی غلطیاں دہرا رہے ہیں اور ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر چلا رہے ہیںقومی مصالحتی کمیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میں طویل عرصہ سے قومی اور مصالحتی اور سچائی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتا آ رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ ہی اس موضوع پر تقریر بھی کی ہے۔ جنوبی افریقہ کے راہنما نیلسن منڈیلا نے سب سے پہلے قومی مصالحت اور سچائی کمیشن قائم کرنے کا تصور دیا۔ نیلسن منڈیلا سفید فام نسل پرستوں کو جنہوں نے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا ہے مشاورت کی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ منڈیلا نے تو بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔
نیلسن منڈیلا نے جس کمیشن کے قیام کا اعلان کیا اس کے مقاصد یہ تھے کہ ماضی میں جن لوگوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہوئی انہیں اپنا موقف بیان کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دیا جائے اور ماضی کی غلطیوں سے آئندہ بچنے کے لیے ایک نیا طرز انداز حکومت دیا جائے۔ غلطیوں کی ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور غلطی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے ۔ جنوبی افریقہ نے اس تصور کو قبول کیا اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنوبی افریقہ ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن ہے۔
اب ہمیں 2007ء میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرز پرٹروتھ اینڈ ری کانسیلیشن کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی تیرھویں شق میں یہ کہا گیا تھا کہ مقامی سطح پر ایک ٹروتھ اینڈ ری کانسیلیشن کمشن بنایا جائے گا۔ اور کمشن تشدد اور ٹارچر کا شکار ہونے والے شہریوں ،ریاستی جبر کا شکار ہونے والوں ، افراد لانے والے احتساب اور دوسری ناانصافیوں کا جائزہ لے گا۔ کمشن ماضی میں فوجی بغاوتوں اور حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے محرکات کا جائزہ لے گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا خواب تھا کہ یہ کمشن بنے۔ ان کی شہادت تک ان کا یہ خواب تھا کہ سابق بیوروکریٹ کی نگرانی میں احتساب کا نظام قائم کرنے کی بجائے قومی سطح پر کمشن بنایا جائے۔ اس کمشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوں اور اس میں چار سینئر جج شامل ہوں۔ بعض سینئرو کلا اور بیورو کریٹس کو اس کمشن میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کمشن 1973ء کے آئین کا جائزہ لے اور کمشن اٹھارہویں ترمیم برقرار رکھے اور آئین میں پی سی او کے تحت شامل کی گئیں ترامیم اور شقیں آئین سے نکال دے۔
سرکش سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات پر بھی نظر ڈالے اور ان ناکامیوں کا جائزہ لے جس سے سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ کمشن سیاسی وفاداریاں بدلنے کے کلچر کا جائزہ لے اس کے خاتمے کے لیے اقدامات تجویز کرے کمشن یہ دیکھے کہ اداروں کو ناکام بنانے میں کس نے کتنا کردار ادا کیا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024