سیاستدانوں کی عید اور ریت میں دفن ننھی لاشیں
عام انتخابات سے قبل سیاستدانوں اور امیدواروں کا اپنے غریب ووٹر سے رابطہ بحال تو ہو گیا تھا لیکن عیدالفطر کی آمد نے سیاستدانوں کی مصروفیات اور عوامی میل جول میں مزید رنگ بھر دیا۔ عیدالفطر پر عوام کیلئے سیاستدانوں نے بند دروازے کھول دئے اور وہ بھی اس طرح کہ نہ تو بڑے گیٹ پر کوئی چوکیدار تھا اور نہ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا تھا۔ پنڈال سجے ہوئے تھے۔ مٹھائیوں سے اپنے ووٹرز کی تواضع ہو رہی تھی اور اتنی بے تکلفی تھی کہ ہم لوگ بھول بلکہ سب کچھ بھول گئے۔ پانچ سال کی بے وفائی‘ بے اعتنائی سیاستدانوں کی جائز مجبوریوں کو ہم نے تسلیم کر لیا اور پھر ٹھنڈے شربت اور مزاج کے مطابق کڑک چائے نے من و تو کے سب فاصلے مٹا دئے۔ ہم تو ایک فون کال پر سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں اور اتنے وفادار اور جانباز کارکن بن جاتے ہیں کہ عید کے روز اپنے سردار‘ خان‘ چودھری اور مخدوم صاحب کی ملاقات کیلئے جاتے ہوئے مٹھائی اور کیک لے جانا بھی نہیں بھولتے۔ اتنے مٹھائی کے ڈبے جمع ہو جاتے ہیں کہ رات کو دور کہیں کسی تالاب یا کچھ کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دئے جاتے ہیں۔ ہم کرسیوں پر ٹانگیں پسار کر شام تک بیٹھے رہتے ہیں ۔ کھانے کے دور بھی چلنے کی امید ہوتی ہے۔ عید کی ملاقاتوں میں تمام فاصلے ختم ہوگئے۔ اپنے ووٹرز کے ساتھ سیلفیاں بنائی گئیں۔ ووٹر نے اپنے موبائل فونوں سے تو بے تحاشا تصویریں بنائیں مگر سیاستدانوں نے ایسے لوگوں کو نہ صرف اپنے ساتھ کھڑا کر کے بلکہ ایک دوسرے کے کندھوں پر بانہیں رکھ کر خود سیلفیاں بناتے رہے اور یہ وہ لوگ تھے جنہیں پورے پانچ سال ملاقات کا موقع نہیں دیا گیا۔ اگر ملاقات ہوئی بھی تو صرف ہاتھ ملانے تک محدود رہی کیونکہ سیاستدانوں کے اردگرد اس وقت کچھ ایسے لوگ تھے جو انویسٹر کہلاتے تھے یا پھر پروٹوکول کے لوگ جو عام آدمی کو اپنے ایم این اے‘ ایم پی اے‘ سینئر اور وفاقی اور صوبائی وزیر سے دور رکھنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔
ووٹر بیچارہ تو بھول جاتا ہے کہ ان کا نمائندہ اس کے بیٹے یا بیٹی کی شادی میں نہیں آتا حالانکہ وہ شادیوں کی تاریخ بھی اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کے مشورے سے طے کرتا رہا۔ ووٹر اور علاقے کے بڑے آدمی اپنے بزرگوں کے جنازے رکھ کر اپنے سردار کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہ آئے اور پھر دفن کر دیا گیا۔ علاقے میں جگ ہنسائی بھی ہوئی لیکن ہم محسوس کرتے ضرور ہیں مگر خان جب آجاتا ہے تو پھر سب کچھ بھول بھال کے نئے سرے سے ایک بار پھر اعتماد کر لیتے ہیں۔اس عید پر اپنے سیاستدانوں کے گرد ہجوم نے ثابت کر دیا کہ’’ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘‘انہوں نے ہی پھر انتخابات میں کامیاب ہونا ہے چونکہ ان بڑے لوگوں کی تربیت ہی ایسی ہے ۔دو ماہ غریبوں کے ساتھ گزار کر انہیں برداشت کر لیں ان کے پسینے کی بدبو بھی برداشت کرتے ہیں۔ ان سے اب ہاتھ ہلانے کی بجائے معانقہ کرتا ہے۔ اب تو اپنے ووٹران کو چومتے ہیں۔ گردن اور پسینہ آلود ماتھے چوم رہے ہیں۔ جن کی شادی اور غمی پر نہیں آئے اب عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کو مبارک بادیں دینے آرہے ہیں۔ پانچ سال میں فاتحہ خوانی نہیں کر سکے لیکن اب فاتحہ کیلئے آرہے ہیں۔ اب جو بڑا ضدی ووٹر یا برادری ہوتی ہے انہیں فون کر کے کہا جاتا ہے کہ کل میں آپ کے گھر کھانا کھاؤں گا۔ کون اس سے انکار کرے۔ جب تک غلامانہ ذہن موجود ہے یہ ہمارے سردار‘ مخدوم‘ خان اور چودھری کامیاب ہوتے رہیں گے اور ہمارے لئے یہی سزا ہونی چاہئے۔
اس بار اکثر سیاستدانوں نے اپنے ملک میں اور اپنے حلقہ انتخاب میں عید منانے کو ترجیح دی۔ ماسوائے میاں نوازشریف اور حالیہ صدر پاکستان مسلم لیگ ن میاں شہبازشریف جو ہمیشہ کی طرح لندن میں عید مناتے ہیں اس بار تو ان کی مجبوری تھی کہ کلثوم نواز ایک عرصہ سے علیل ہیں اور اس بار تو وہ شدید علیل ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان نے قطع نظر سیاسی اختلافات کے محترمہ کیلئے جلد صحتیابی کی دعاؤں میں شریک ہیں۔ سیاستدانوں اور انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے آبائی علاقوں میں مصروف عمل ہیں ۔ ڈیرہ غازیخان کے سینئر سیاستدان سردار مقصود خان لغاری اپنے بڑے بھائی کے انتقال کے باوجود لاہور سے چوٹی میں اپنے بیٹے سردار محمد خان لغاری کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی دنگل میں مقابلہ کیلئے ہمہ تن مصروف ہیں۔ حلقہ این اے 192 پنجاب بھر میں شہرت کا حامل حلقہ سمجھا جا رہا ہے اور ایک ہی خاندان کے لوگ سیاسی میدان میں درآمدی امیدوار کے حق اور مخالفت میں پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ ان سرداروں کے قد آدم دروازے انتخابات تک کھلے رہیں گے۔ دیگر سیاستدان بھی اپنے ووٹران کو منانے اور ایک دفعہ پھر بیوقوف بنانے میں مشغول ہیں۔
عیدالفطر اور انتخابی عمل نے جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تین کمسن بیٹیوں کو بھلا دیا۔ اخبارات‘ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس بے بس باپ کی صحرا میں بھٹکنے والی بیٹیوں کی ریت میں دفن ہو جانے تک کسی نے نوٹس نہیں لیا کیونکہ یہ چھب کلاں ضلع خانیوال کے غریب ہاری نصیر احمد کی معصوم بیٹیاں تھیں جومحنت مزدوری کرنے کیلئے فورٹ عباس میں تھے کہ 45 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی اور 97 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریت بھری تیز آندھی سے وہ راستہ بھٹک گئیں۔ نصیر احمد اور اسکی بیوی پاگلوں کی طرح چولستان میں اپنی ننھی کلیوں کو ڈھونڈتے رہے۔ مقامی لوگوں کی مدد سے تیسرے دن ان کی لاشیں ملیں۔ ریت کے طوفان میں چولستان کی شدید گرمی میں بھوک اور پیاس سے اپنا گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگی ہار گئیں۔ ریت سے برآمدہ تینوں بہنوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک غریب ہاری نصیر احمد کی گمشدہ بیٹیوں کیلئے ضلعی انتظامیہ حرکت میں نہ آئی۔ نہ کوئی ریسکیو مشن نکلا ۔ اربوں کے ہیلی کاپٹر جامد و ساکت کھڑے رہے۔ غریب بچیاں لاوارث پڑی رہیں جبکہ ہماری قوم چاند رات اور عید کی خوشیوں میں مگن رہی۔ سیاستدان اپنے ووٹروں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے رہے۔ وہ یہیں مر گئیں اور دفنا دیا گیا۔ ان کو کون علاج کیلئے لندن بھیجتا۔ اگر زخمی حالت میں مل جاتیں۔ لندن والے لندن میں عید منائیں۔ سیاستدان اپنے انتخاب کی فکر کریں۔ حکمران دو ماہ کی نگرانی کا مزا لیں۔ مجھ سے تو ریت میں پڑی لاشیں نہیں دیکھی گئیں۔ آئیے انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھ لیں‘ ان بچیوں کیلئے نہیں اس مردہ قوم کیلئے۔