دہشت گرد حملوں میں ملوث فضل اللہ کی ہلاکت
افغان وزارت دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ 13جون کو صوبہ کنڑ میں ہونیوالے امریکی ڈرون حملہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ ہلاک ہو گیا۔ یہ کارروائی امریکہ اور افغان فورسز نے ملکر کی ۔ حملہ رات کے وقت ہوا جس میں گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹن اوڈونیل نے بتایا کہ ’’امریکی افواج نے 13جون کو صوبہ کنڑ میں انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی کی، جس میں دہشت گرد تنظیم کے ایک سینئر رہنما کو ہدف بنایا گیا‘‘۔
ملا فضل اللہ پر یہ بھی الزام تھا کہ اس کے گروپ نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کر کے اسے مارنے کی کوشش کی تھی۔ ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے تحریک چلا رہی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ملا فضل اللہ کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کی تھی۔ ملا فضل اللہ کے بارے میں مارچ 2013 ء میں یہ افواہ پھیلی تھی کہ وہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا ہے۔ لیکن یہ افواہ غلط ثابت ہوئی۔ کنڑ میں امریکی ڈرون حملہ اس وقت میں ہوا جب طالبان نے اتحادی اور افغان فورسز کے خلاف رمضان المبارک کی وجہ سے جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے۔
ملا فضل اللہ پاکستانی فوج کی چیک پوسٹوں پر حملہ کرنے اور پاکستان کے اندر کئی دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔ پاکستانی حکومت افغان حکومت سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا پھر ملا فضل اللہ کے خلاف مشترکہ فوجی آپریشن کی اجازت دی جائے۔
فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھا۔ فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جنگ کے لیے افغانستان لے گئے جن میں مولانا فضل اللہ بھی شامل تھا۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہو اا ور تقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہا۔ بعد میں فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں مولانا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا۔
مولوی فضل اللہ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1994ء میں تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں شمولیت سے کیا۔ تحریک کے سربراہ صوفی محمد کی بیٹی کو بھگا کربعد میں اس سے شادی کر لی ۔ 2005میں ایک غیر قانونی ایف ایم ریڈیو شروع کیا جس میں لڑکیوں کی تعلیم، پولیو کے خلاف ٹیکوں اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف خطبے دیتا رہااور اِسی بنا پر اسے ’ملا ریڈیو‘ کے نام سے بھی یاد کیا جانے لگا۔ کچھ عرصہ بعد یہ بات بڑھتے بڑھتے مبینہ طور پر اغواء برائے تاوان کے واقعات، اسکولوں پر حملوں اور عوامی مقامات پر خود کش بم دھماکوں تک پہنچی، جس کے بعد حکومت اور فوج کے مشترکہ فیصلے کے بعد، سوات میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔2009 میں کامیاب فوجی کارروائی کے بعد، مولوی فضل اللہ سوات سے غائب ہوگیا۔یہ اطلاع بھی تھی کہ مولوی فضل اللہ افغانستان کے کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
یہ درست ہے کہ طالبان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ امریکی ،اسرائیلی ،برطانوی اور انڈین آلہ کار ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔یہ آپس میں اس رقم کی تقسیم پر لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں جو انہیں بیرونی ممالک کی ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں۔مولوی فضل اللہ گروپ بھی انہی طالبان گروپوں میں سے ایک تھا جو بیرونی ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں۔2 نومبر 2009ء کو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے بتایا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیرِ استعمال بھارتی لٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کو مانا ہے کہ دہشت گردوں کی تخلیق میں امریکہ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے۔پاکستان نے کابل میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہے ہیں اور بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق فضل اللہ 13 جون کو تحریک طالبان سوات کے ایک مرکز میں ایک افطار پارٹی میں شرکت کیلئے گیا تھا ۔ افطاری کے بعد واپس اپنی گاڑی میں جاتے ہوئے اس پر ڈرون حملہ کیا گیا جس سے وہ موقع پر اپنے محافظوں سمیت ہلاک ہوگیا۔ حملے میں ہلاک ہونیوالے مکمل طور پر جل گئے تھے اور انہیں 14 جون کی صبح دو بجے بچئی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔طالبان اس خبر کو صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس کا اعلان طالبان شوری کی جانب سے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد کیا جائے۔
افغان صدر اشرف غنی نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون پر ملا فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی۔ فضل اللہ کی ہلاکت مثبت پیش رفت ہے۔ فضل اللہ کی ہلاکت سے سانحہ اے پی ایس سمیت دیگر واقعات میں شہید ہونے والوں کے ورثا کو ریلیف ملا ہے۔