رسول بخش پلیجوکا شمار سندھی قوم پرست لیڈروں میں ہوتا ہے جو عمر بھر غریب ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا۔ وہ جب بھی اسلام آباد آتے تو راقم السطور ان کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں مدعو کرتا یا ان کا نوائے وقت کیلئے انٹرویو کرتا۔ ان سے سندھ کے عوام کو درپیش مسائل پر کھل کر بات کی جاتی وہ حیدر بخش جتوئی، خان عبدالغفار خان عرف باچا خان، جی ایم سید، ولی خان، غوث بخش بزنجو، ابراہیم جویو، فاضل راہوکے ساتھیوں میں شامل تھے۔ انہوں نے مختلف پلیٹ فارموں پر سندھ کے عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے جدوجہد کی۔ اگرچہ ان کا تعلق پاکستان کے ان قوم پرست رہنمائوں سے تھا جو سندھ کی خود مختاری کی بات کرتے کرتے کنفیڈریشن تک جا پہنچتے ہیں لیکن وہ سندھ کے لئے پاکستان کے فریم ورک میں جگہ بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کبھی پاکستان سے علیحدگی کی بات نہیں لیکن وہ ’’ناراض‘‘ سندھی تھے جو ’’ہاریوں‘‘ کے پاکستان کے نقشے میں جگہ بنانا چاہتے تھے۔ رسول بخش پلیجو سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ میں نے بات خاص طور نوٹ کی کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے بڑے شیدائی تھے وہ انہیں برصغیر پاک وہند کا سب سے بڑا لیڈر تسلیم کرتے تھے۔ وہ جواہر لعل نہرو کے مقابلے میں قائد اعظم کو اس لئے بڑا لیڈر تسلیم کرتے تھے کہ انہوں نے بر صغیر پاک و ہند میں ہندوئوں کے ہاتھوں معاشی طور پسے ہوئے مسلمانوں کے لئے طویل جدو جہد کے بعد ایک علیحدہ ریاست قائم کی لیکن انہیں اس بات کا بڑا افسوس تھا کہ قائداعظم نے جن مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان حاصل کیا ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے فراموش کر دیا۔ رسول بخش پلیجو مونگر پلیجو جنگ شاہی میں 20جنوری 1930ء میں پیدا ہو ئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لیا اس کے بعد ایس ایم لاکالج کراچی سے قانون کی تعلیم حاصل کی وہ سپریم کورٹ کے وکیل تھے انہوں نے نیب کے رہنماؤں کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔ رسول بخش پلیجو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے شروع کیا اور ہاریوں کے حقوق کے لئے طویل جدوجہد کی۔ انہوں نے 64ء میں نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور کمیونزم کا پرچار کیا پاکستان میں کارل مارکس کے پیروکار ہونے کے دعویدار بہت لوگ ہیں لیکن بہت کم لوگ ہیں۔ جنہوں نے کارل مارکس کو پڑھا اور اس کے نظریے پر عمل کیا کیا لیکن پلیجو سائیں نے جہاں کارل مارکس کو پڑھا وہاں انہوں نے اس کے نظریے کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ وہ بیک وقت دانشور، ادیب، شاعر، سیاسی لیڈر قانون دان، نجومی، انسانی حقوق کے علمبردار، مرد اور عورت کی برابری کے چیمپئن، سندھی قوم پرست لیڈر تھے۔ اردو شاعری کے قدر دان تھے۔ انگریزی، اردو، سندھی زبان کے علاوہ انہیں سات دیگر زبانوں پر عبور تھا اس لحاظ سے وہ ہفت زبان تھے۔ وہ اپنے نظریے پر سختی سے قائم رہے کبھی گرم سرد سیاسی موسم ان کے نظریات پر اثر انداز نہیں ہوا پیجو سائیں نے سندھ میں ’’دھرنے‘‘ کی سیاست کو آگے بڑھایا۔ دیہی خواتین ان کی کال پر دھرنے میں حصہ لیتی تھیں ان کی اپیل پر سندھ کی دیہی خواتین نے بحالی جمہوریت کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کی بیگم زرینہ بلوچ جو ایک گلوکارہ بھی تھیں نے خواتین ریلیوں کی قیادت کی۔ پلیجو سائیں کا کچھ وقت برطانیہ میں گذرا تو وہاں پر سیاسی محافل کی جان پلیجو سائیں ہوا کرتے تھے انہوں نے فضل راہو کو عوامی تحریک کا سیکریٹری جنرل بنایا۔ جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے خلاف احتجاج کرنے پر پلیجو سائیں کو جیل میں ڈال دیا کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف تھے انہوں نے پانی کے ایشو پر کتب بھی تحریر کی ہیں انہوں نے 2005ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی کوشش کے خلاف ملین مارچ نکالا۔ ان کا زیادہ وقت نیشنل عوامی پارٹی میں نہیں گزرا انہوں نے 24مارچ 1970ء میں سندھی قوم پرست جماعت، عوامی تحریک کی بنیاد رکھی جس کے تاحیات سربراہ رہے۔ ان کے مزاج میں استقلال نہیں تھا انہوں نے ایک بار پھر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد نئے نام عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے قائم ہونے والی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی وہ اسکے مرکزی سکریٹری جنرل بھی رہے اور88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا بعدازاں دوبارہ سے اپنی جماعت عوامی تحریک بحال کرلی انہوں نے ون یونٹ اور کالا باغ ڈیم کے خلاف تحریک چلائی ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی نمایاں رہے کالا باغ ڈیم کے خلاف تین مرتبہ لانگ مارچ بھی کیا جو سکھر سے کراچی اور بھٹ شاہ اور حیدرآباد سے کراچی تک تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے کیوں مخالف ہیں جب کہ اس کی تعمیر سے چاروں صوبوں کو فائدہ پہنچے گا ان کے پاس اس سوال کا ایک جواب تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو پنجاب سندھ کی آنے والی نسلوں کو پانی کے ایشو پر بلیک میل کرتا رہے گا۔ میں نے یہ بات نوٹ کی کہ رسول بخش پلیجو سمیت سندھ کے متعدد رہنما کالاباغ ڈیم کی بجلی کی پیداوار کے لئے تعمیر کے مخالف نہیں لیکن سندھی پختون قوم پرست لیڈروں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اس حد تک متنازعہ بنا دیا سندھ سے کسی لیڈر کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ کچھ سیاسی جماعتوں کی سیاست ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے عوامی نیشنل پارٹی کے پاس دو ہی نعرے تھے ایک سرحد کا نام پختون خوا رکھنا اور دوسرا کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت۔ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے سے بڑی حد تک عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکل گئی ہے لیکن جب کبھی پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بازگشت سنی جاتی ہے۔ تو کچھ سیاسی جماعتوں کی سویاست میں کچھ جان پڑ جاتی ہے انہوں نے وکلاء بحالی تحریک میں بھرپور شرکت کی انہوں نے سیاسی جدوجہد کے لئے سب سے پہلے سندھی خواتین کو میدان میں اتارا اور عملی جدوجہد میں انہیں شریک کیا 88سالہ رسول بخش پلییجو نے مختلف اوقات میں مجموعی طور پر11سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں سب سے پہلے ان کی گرفتار ی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1975ء میں ہو ئی وہ ساڑھے پانچ سال کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید رہے۔ وہ 26کتابوں کے مصنف تھے جس میں چند ایک اردو اور بقیہ سندھی میں تحریر کی گئیں جبکہ ان کی کوٹ لکھپت جیل میں تحریر کردہ ڈائری زیادہ مشہور ہوئی انہوں نے امریکہ، ماسکو، چائنا، برطانیہ سمیت کئی ممالک کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے پانچ شادیاں کیں، سندھ کی مشہور لوک گیت فنکار زرینہ بلوچ مرحومہ بھی ان کی اہلیہ تھیں ان سے7 بیٹے اور4 بیٹیاں پیدا ہوئیں سیاسی میدان میں ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو ہیں لیکن 2016ء میں باپ بیٹے کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے جب کہ ایاز لطیف پلیجو نے عوامی تحریک کی جگہ قومی عوامی تحریک قائم کرلی ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کے انتقال پر عوامی تحریک نے چالیس دن اور قومی عوامی تحریک نے15دن سوگ کا اعلان کیا ہے ان کی تد فین ضلع ٹھٹھہ کے شہر جنگ شاہی میں ان کے آبائی گوٹھ مونگر پلیجو میں ہوئی جس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی شرکت سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ سندھ کے عوام میں بہت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024