قبائلی عمائدین اور پی ٹی ایم جرگہ سے وابستہ توقعات
افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے تمام قبائلی علاقے(جو اب خیر سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہو چکے ہیں) 2001 ءکے بعد جس طرح کی مشکلات سے گزرے ہیں یہ سب تاریخ کا حصہ بن جانے کے باوجود انتہائی تکلیف دہ یادیں لئے ہوئے ہیں۔ وہاں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے تسلط کو ختم کرنے کے لئے پاک فوج نے جس قدر قربانیاں دیں یہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ طویل جنگ کے بعد جب علاقہ غیر کہلائے جانے والے ان قبائلی علاقوں میں امن بحال ہو گیا‘ زندگی لوٹنے لگی اور جنگی بنیادوں پر تعمیر نو کا آغاز ہوا تو اچانک ہی منظور پشتین نامی26 سالہ نوجوان کی سربراہی میں پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف4 ماہ کے عرصہ میں سوشل اور مقامی و غیر ملکی میڈیا پر چھا گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پاک فوج نے طاقت کے زور پر قبائلی ایجنسیوں پر قبضہ کر لیا ہو جس کے خلاف ان علاقوں کے نوجوان اپنا علاقہ واگزار کرانے کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔ اس پورے عمل کا حیران کن پہلو یہ رہا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک غیر ملکی سرمائے سے چلنے والی این جی اوز نے بھی پختون تحفظ موومنٹ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ملک بھر کے وہ تمام لبرل طبقات جو ”لبرل“ کا لفظ اپنی شناخت کیلئے استعمال کرنے سے پہلے ترقی پسند کہلوانا پسند کرتے تھے اور فکری طور پر کمیونزم ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس زمانے میں یہ سرمایہ دار انہ نظا م اور مذہب دونوں سے بےزار سمجھے جاتے تھے لیکن سودیت یونین کی ناگہانی وفات کے بعد یہ مذہب بیزار تو رہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام ان کا آئیڈیل بن گیا جس کی قیادت محمود خان اچکزئی سمیت مختلف شخصیات کے مشترکہ کنٹرول میں تھی۔ پی ٹی ایم والے بڑے بڑے جلسے کرنے لگے جن میں شرکاءکی تعداد دیکھ کر قومی سیاسی جماعتیں بھی شرمانے لگیں کہ لاکھوں چاہنے والوں کے باوجود اتنی تعداد تو وہ بھی اپنے جلسوں میں اکٹھی نہیں کر پاتے۔ افغان و بھارتی حکمرانوں کی طرف سے پی ٹی ایم کی حمایت اور مغربی میڈیا کی طرف سے منظور پشتین کو کرشمہ ساز پختون لیڈر قرار دئے جانے کے بعد اہم واقعہ اس وقت رونما ہوا جب 30 اپریل 2018 ءکو سوات میں جلسہ کے دوران پی ٹی ایم والوں نے ایک مقامی نوجوان کو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم جلسہ گاہ میں لے جانے سے روک دیا اورجھنڈا لے جانے والے نوجوان کو زدوکوب کیا گیا۔ تاہم اس پوری کارروائی کی ریکارڈنگ جھنڈا لے جانے والے نوجوان کے دیگر ساتھیوں نے اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لی جس کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں پی ٹی ایم کے حقیقی مقاصد پر بحث شروع ہو گئی۔ علاوہ ازیں سوات ہی میں منظور پشتین کے ایک قریبی ساتھی کی طرف سے پاک فوج کی مخالفت اور اسرائیلی فوج کے حق میں نعرہ بازی نے بھی لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم اس کے بعد پی ٹی ایم والوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ یہ جہاں بھی جلسہ کرتے یا ریلی نکالتے اس میں پاک فوج کو ہدف بناتے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ۔دوسرا بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا جب پی ٹی ایم نے 4 جون کو جنوبی وزیرستان کے افغان سرحد سے قریبی علاقہ وانا میں وہاں کے معروف رستم بازار میں ریلی نکالی اور جلسہ کرنا چاہا۔ یہاں پی ٹی ایم کے شرکا کی طرف سے حسب روایت پاکستان اور پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی شروع ہوئی تو وانا کے مقامی عمائدین اور وہاں موجود امن کمیٹی نے انہیں ایسا کرنے سے روکا مگر پی ٹی ایم والے نعرہ بازی میں مصروف رہے جس پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ایف سی نے فوری طور پر علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے کر علاقے میں تا حکم ثانی کرفیو لگا دیا گیا کیونکہ فریقین میں پائے جانےوالے اشتعال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فساد کا خطرہ تھا۔ اس عرصہ میں فریقین اور جرگہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد امن کی ذمہ داری امن کمیٹی سے لے کر فرنٹیئر کور کے حوالے کر دی گئی۔ یہ ایک اچھی پیشرفت تھی جس میں جرگہ کے قبائلی عمائدین نے انتہائی مثبت طریقے سے صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچا لیا لیکن وانا کے بازار میں تصادم کی ذمہ داری پاک فوج پر ڈالتے ہوئے پی ٹی ایم نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا۔ وہاں پاکستان مخالف نعرہ بازی اور نفرت انگیز تقریریں کرنے کے علاوہ پاک فوج کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے وہ تمام مطالبات دہرائے جنہیں بنیاد بنا کر پختون تحفظ موومنٹ کا آغاز کیا گیا تھا۔ وانا کے عوام کو 18 برسوںکے بعد امن و سلامتی حاصل ہوئی تھی۔ بند تعلیمی ادارے کھل گئے تھے۔ کھیل کے میدان آباد ہو گئے تھے۔ وانا کے بازار رات گئے تک کھلے رہنے لگے تھے۔یہ امن شاید ان لوگوں (پی ٹی ایم والے) سے برداشت نہیں ہوا جو کہ سچ ہے۔ پاک فوج نے یہ امن طویل جنگ کے بعد قائم کیا تھا۔ جسکے بعد وہ تمام نامعلوم لوگ جن کے ڈر سے لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے تھے مار بھگائے گئے“ ۔ قبائلی علاقوں میں عوامی حمایت حاصل نہ ہونے کی بدولت پی ٹی ایم نے مسائل و مطالبات کے حل کےلئے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا تو اس کیلئے 12 جون 2018 ءکو حیات آباد پشاور میں شاہ جی گل آفریدی کے حجرہ میں جرگے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف قبائلی عمائدین سمیت ملک خان مرجان‘ اجمل وزیر‘ سابق صوبائی وزیر شاہ فرمان نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ محسن داور نے پی ٹی ایم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت جرگے میں شرکت کی۔ خوشگوار ماحول میں ہونے والی بات چیت کے بعد جرگے کے اختتام پر اعلان کیا گیا کہ جرگے کی آئندہ نشست22 جون 2018 ءکو ہو گی۔ جلسوں یا ریلیوں میں پاک فوج کےخلاف نعرہ بازی نہیں کی جائےگی۔ اس جرگے میں منظور پشتین کی غیر حاضری کو ضرور محسوس کیا گیا۔ تاہم امید ظاہر کی گئی کہ پی ٹی ایم والے پاکستان دشمنوں کا آلہ کار بننے کی بجائے قبائلی علاقوں میں مشکل سے قائم ہونےوالے امن کی مستقل بحالی میں اپنا مثبت کردار ادا کرینگے جس کا اندازہ 22 تاریخ کو جرگے کے نتائج سے ہو جائےگا لیکن اس سے قبل 13 جون کو افغان صوبہ کنٹر میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل ملا فضل اﷲ کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ایک ایسی پیش رفت ہے جس کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری اور خطے میں قیام امن کی نئی راہیں کھلنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس خبر کا اہم پہلو یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے از خود فون کے ذریعے نگران وزیراعظم ناصرالملک اور پاک فوج کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کو ملا فضل اﷲ کی ہلاکت کی خبر سے آگاہ کیاجبکہ دہشت گردوں کے ایک گروہ نے شوال میں سرحدی چوکی پر حملہ کر کے تین پاکستانی جوانوں کو شہید کر دیا۔ پاک فوج کی فوری جوابی کارروائی میں پانچ دہشت گرد بھی مارے گئے لیکن اس حملے سے ظاہر ہو گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔