طب سے متعلق قوانین.... انصاف کے تقاضے
مکرمی! ملک بھر کے کوالیفائیڈ حکما و اطبا 1965ءکے ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت کے ادارے نیشنل کونسل فارطب سے رجسٹرڈ ہیں۔ اب پنجاب حکومت انہیں اپنے ادارے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے دہری رجسٹریشن اور لائسنس پر مجبور کر رہی ہے جو بلا جواز اور ناروا عمل ہے۔ وفاقی ادارے کی رجسٹریشن کی موجودگی میں صوبائی ادارے سے رجسٹریشن اور لائسنس کا عمل ایک طرح سے وفاقی حکومت کے ایک آئینی ادارے کی رجسٹریشن پر بداعتمادی اور اسے بے وقعت کرنے کے مترادف ہے جس سے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کا تاثر ملتا ہے۔ PHCکی طرف سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ PHCاطبا کی نہیں بلکہ ان کے مطب کی رجسٹریشن کر رہا ہے مگر اصول کی بات یہ ہے کہ اطبا کی رجسٹریشن کی طرح ان کے مطب کی رجسٹریشن غیر ضروری ہے جس طرح وکیل کے چیمبر کی الگ سے رجسٹریشن ضروری نہیں سمجھی جاتی وکیل کا لائسنس ہی اس کے چیمبر کی رجسٹریشن تصور ہوتا ہے اسی طرح طبیب کی رجسٹریشن ہی اس کے مطب کی رجسٹریشن تصور کی جانی چاہئے۔PHCکی طرف سے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات میں اب رجسٹریشن کا لفظ ختم کرکے صرف لائسنس حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ اطبا کیلئے وفاقی حکومت کے ادارے نیشنل کونسل فار طب کی رجسٹریشن ہی ان کا لائسنس ہے۔ انہیں الگ سے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں۔اس رجسٹریشن کی ہر چار سال بعد وفاقی حکومت کے ادارے سے تجدید ہوتی اور فیس ادا کی جاتی ہے 1965ءکے ایکٹ کی منظوری کے بعد سے اب تک (52سال سے) اسی رجسٹریشن کی بنیاد پر اطبا پریکٹس کر رہے ہیں ان کی یہ رجسٹریشن ہی اگر ان کا لائسنس نہ ہوتی تو وفاقی حکومت ان کیلئے الگ سے لائسنس جاری کرنے کا ضرور اہتمام کرتی۔(حکیم سید حبیب الرحمن، خیرپور ٹامیوالی)