شہری پنجاب پر طاری نواز شریف کا جادو
نواز شریف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے شہری پنجاب کا ووٹر کوئی دلیل،منطق سننے کو تیار نہیں ہے وہ آمدہ انتخاب 2018میں اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرے گا شیر کو ووٹ دے گا اور پاکستان کی تقدیر سے کھلواڑ کرے گا۔
اس کالم نگار کے خیال میں انتخاب 2018 میں مقابلہ نواز شریف اورعمران خان کی بجائے پاکستان اورنواز شریف کے خیالات وتصورات کے درمیان ہوگا جس میں نفسیاتی اعتبار سے وہ جیت چکے ہیں۔ دوقومی نظریہ جو پاکستان کی اساس تھا آج عملاً ایک مذاق سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا مذاق اڑایا جارہا ہے اسے ناممکن اوراحمقانہ تصور قرار دیا جارہا ہے کہ سوا ارب اور 20 کروڑکیسے برابر ہوسکتے ہیں۔ جناب نواز شریف کے مودی سے ذاتی تعلقات اورجھکاﺅ پر جواب دیا جاتاہے کہ اگر پاک فوج کا ایک لیفٹیننٹ جنرل جو آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت فوج کے حساس ترین اداروں کاسربراہ رہا ہواورریٹائرمنٹ کے بعد شبینہ محافل اور مجالس میںنہ کہنے والی باتیں بھی بیان کررہاہو اور ''را''کا ریٹائرڈ سربراہ منہ کھولے ہکا بکا یہ سب کچھ سن رہا ہو تو نواز شریف کی کسی تقریب پر مودی کی آمد سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ کیا مذاق ہے کہ نواز شریف امن کی بات کرے تو غدار قرارپائے جب یہی بات جنرل محمود علی درانی کرے تو ''شانتی جنرل''کہلائے۔
لوٹ مار اورکرپشن بارے دلیل یہ ہے کہ جسے بھی موقع ملے گا وہ کرے گا میاں صاحبان نے تو لگایا بھی تو ہے جومیٹرو،اورنج ٹرین اور اسی طرح کے شاہانہ منصوبوں کی صورت دکھائی دیتا ہے اوریہ کہ طوفان خان نے کے پی کے میں کیا کیا ہے وہ ایک ارب درخت کہاں ہیں؟ وہ 5 سو ڈیم کدھرگئے؟ میٹرو ب±ری تھی تو آج پشاور کو ادھیڑکر کیوں رکھ دیا گیا ہے۔یہ کالم نگار دیانت داری سے یہ سمجھتا ہے کہ آج کے پاکستان کے بیشتر دکھوں کے ذمہ دار جناب نواز شریف اور انکے بعض ساتھی ہیں جنہوں نے مجرمانہ غفلت سے نہیں، دیدہ دانستہ پاکستان کو تباہی کے موجودہ دہانے تک پہنچادیا ہے۔خاص طورپر 2013کے بعد 35 ارب ڈالر کے غیر ضروری اور بلا ضرورت قرض نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ اس سے پہلے 65 برس میں لیا جانے والا قرض صرف 40 ارب ڈالر تھا۔
یہ بجلی کے منصوبوں کے گردشی قرضے اورنام نہاد ترقی کے بلاجواز شاہانہ منصوبے لیکن شہری پنجاب کا ووٹر کوئی دلیل سننے کوتیار نہیں، ہماری سنجیدگی کا یہ عالم ہے پاکستان بتدریج قحط کی طرف بڑھ رہا ہے اگلے 6،7 سال میں پینے کو پانی نہیں ملے گا۔زراعت کا کیا حشر ہوگا سوچنا بھی محال ہے۔ایک اچھا بھلا تعلیم یافتہ نوجوان اس کالم نگار کے واویلے پر بڑے اطمینان سے ٹونٹی کھول کردکھاتا ہے کہ پانی پورے پریشر سے آرہا ہے اوریہ کہ آپ تو 15،20 برس سے پانی کی کمی کا رونا روئے جارہے ہیں لیکن پانی ختم نہیں ہوا اوراب بھی نہیں ہوگا یہ صرف نواز شریف کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔ زراعت کے لئے پانی کی کمی سے آم کی فصل آدھی رہ گئی ہے خوشبودار باسمتی کا توسارا دارومدار پانی پر ہوتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جمشید دستی رمضان میں بے نوا کسانوں کے ساتھ نہروں کی بندش پر دھرنا دئیے بیٹھا رہا، کسی ٹی وی چینل کو اس کی جھلک دکھانے کی توفیق نہ ہوئی۔
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اب کی بار عید پر سفر پیہم اورلامتناہی کہانی بن گیا، میڈیا ٹاﺅن سے راہوالی چھاﺅنی پہلاپڑاو تھا سحری کے بعد بڈھاگورائیہ کا رخ کرنے کی بجائے لاہور کی ٹھانی کہ عید سے پہلے متعلقہ معاملات کو نمٹا دیاجائے۔ اس بارلاہور میں ہماہمی کی بجائے ٹھہراﺅ محسوس ہوا کہ رمضان کی گرمی نے بھی سارے کس بل نکال دیئے تھے۔ عام لوگوں سے غیر محسوس انداز میں عید کے بعد الیکشن کا پوچھا تو کسی جوش وخروش کے بغیر ‘بیشتر افرادنے نواز شریف کے لئے ہمدردی ظاہر کی، تحریک انصاف ٹکٹوں کے معاملے پر بدترین داخلی انتشار سے گزررہی ہے۔ صف اول کے ایک نمایاں رہنما سے بے تکلف گفتگو ہوئی جو علیم خاں گروپ کی چیرہ دستیوں، شاہ محمود قریشی اور سینیٹر سرور چودھری کی پسپائی کی کہانی سنا رہے تھے کہ چودھری سرور اور شاہ محمود قریشی کو ان کی شدید خواہش کے باوجود لاہور سے پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ، رات گئے واپڈا ٹاﺅن میںمزمل چیمہ نے محفل سحری برپا کررکھی تھی۔ ایک ایک حلقے برادری کا تجزیہ ہورہا تھا لیکن گوجرانوالہ شہر سے متعلقہ قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں میں نون لیگ کے مقابل کوئی امیدوار دور دورتک دکھائی نہیں دیتا تھا ۔نون لیگ کے نووارد میاں طارق محمود گجر اور پیپلزپارٹی کے امتیاز صفدر وڑائچ کے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی، روشنی پھیلتی رہی ا±جالاہوتارہا۔
سبزمنڈی گوجرانوالہ سے ملحقہ نئے راستے پر کوٹلی میر شکاراں اور مثری میانی سے ہوتاہوا پھر نوشہرہ روڈ پر آگیا ۔مرکزی شاہراہ جو نوشہرہ ورکاں پر جاکر ختم ہوتی ہے بڈھاگورائیہ سے پہلے گوجرانوالہ بار کے سابق صدر چودھری گل نواز گورائیہ کے ہاں حاضر ہوا۔ تجدید تعلق اور آداب دوستی کا ذکر خیر ہوا۔ بڈھاگورائیہ میں بلال یوسف سوالات کے پٹارے سمیت منتظر تھا۔ پیارے بلال سے گفتگو ہمیشہ طمانیت قلب کا باعث ہوتی ہے۔ عربی گرائمر ‘صرف ونحو کا ممتاز طالب علم جب علم الکلام کے جوہر دکھاتا ہے تو مزہ آجاتا ہے، اس سے متنوع گفتگو میں بڑے دھیان سے آگے بڑھنا ہوتا ہے کہ اسے ماضی کے تمام حوالے ازبر ہوتے ہیں مہاگروانورعزیزچودھری شکرگڑھ میں منتظر تھے اور ہمارا سہ نفری قافلہ براستہ ایمن آباد روانہ ہوا۔ ظفر وال تا شکرگڑھ سفرنے چولیں ہلادیں۔ شکرگڑھ میں مختلف امیدواروں کے بینر بہاریں دکھا رہے تھے۔ حیرت انگیز طورپر سابق وفاقی وزیرنجکاری دانیال عزیز کا کوئی بینر دکھائی نہیں دے رہا تھا جبکہ انور عزیز چودھری تو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے تھے ۔چودھری صاحب کا ڈیرہ جنگل کنارے پر ہے جس کاکوئی دروازہ نہیں کہ فقیروں کے آستانے کھلے ہوتے ہیں ۔چودھری صاحب منتظر تھے معروضات پیش کیں، آزاد حیثیت میں الیکشن نہ لڑنے کی گزارش کی ۔انہوں نے فرمایا یہ کہنے کے لئے اتنا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔دانیال موجود نہیں تھے یہاں وہی دھڑوں کی سیاست، برادریوں کا جادوکار فرما تھا ۔گوجر اورراجپوت کے تنازعے جاری تھے جس کامرکز ومحور امریکہ سے تعلیم یافتہ دانیال عزیز اورپروفیسر احسن اقبال نون لیگ میں ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے مقابل تھے۔بعد از عیدواپسی کا سفر درپیش تھا ہرن مینار سے موٹروے پکڑی اور لائل پور کے گورونانک پورہ میں میاں زاہد سرفراز کا گھر منزل تھا۔ رات گئے اس محل میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ میاں صاحب اور انکے صاحبزادے علی سرفراز موجود نہیں تھے ان سے ملاقات اگلی صبح ہوئی، میاں زاہد سرفراز جاری سیاست سے لاتعلق سے تھے کہ علی سرفراز تحریک انصاف کی ٹکٹ کے لئے برسرپیکار تھا۔ جدید وقدیم علوم کے قصے کہانیاں، منرواکلب کے سبزہ زاروں پر اترتا اندھیرا کچھ زیادہ گہرا ہوجاتا ہے ورلڈ بنک سے ریٹائرڈ ٹھاکر مہاراج منظور، زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اقرار احمد خان میاں زاہد سرفراز اور یہ کالم نگاررات گئے تک علوم وفنون کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے الجھاتے رہے،باربار اپنے مرحوم دوست ٹکا خالد خاں کو یادکیا ان کی محفل آرائیوں کا ذکر رہا، ڈاکٹر اقرار احمدخان یونیورسٹی میں جاری درخت کشی پر افسردہ تھے۔ پانی بچاﺅ موضوع بحث رہا رات گئے پھر ملنے کے وعدے وعید پر مجلس برخاست ہوئی اور مسافرنے اسلام آباد کا رخ کیا کہ عید وداع ہوئی اور ڈھیروں کام منتظر ہیں۔ حرف آخر یہ کہ جناب نواز شریف کے سارے جیالے اور متوالے اپنی اپنی جگہوں پر بروئے کار اپنے جلوے دکھارہے ہیں۔