شہید بے نظیر.... عوامی رہنما
محترمہ بے نظیر بھٹو کو میں نے پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا جب 1977ءکے واقعے کے بعد 1978ءمیں میری کراچی ایئرپورٹ پر تعیناتی ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران میں کراچی ہی میں تعینات رہا، جہاں مجھے پیپلزپارٹی کی سینئرقیادت اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ ان لیڈروں میں حفیظ پیرزادہ، ستار گبول، قاسم پٹیل، پیار علی الانہ، جام صادق، حفیظ چیمہ، حبیب اللہ اور مصطفی جتوئی جیسے لوگ شامل تھے۔ پیپلزپارٹی کے اس دور میں میرے لئے کام کرنے کا یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔
بدقسمتی سے جب ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءالحق کے آمرانہ دور حکومت میں عدالتی قتل کا نشانہ بنے، تو متذکرہ بالا ان کے تمام قریبی سیاسی ساتھیوں نے ان کو چھوڑ کر اپنی وفاداریاں اور راہیں بھی بدل لیں چنانچہ جب ان کے خلاف متنازعہ مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی اور جس کے نتیجے میں ان کو پھانسی ہوئی پیپلزپارٹی کے ان رہنماﺅں میں سے کوئی بھی تحریک مزاحمت کی قیادت کے لئے سامنے نہ آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے ان کی پارٹی کو بڑا سیاسی دھچکا لگا جس سے سنبھلنے اور اس سے ہونے والے نقصان کی تلافی میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ ضیاءحکومت نے پیپلزپارٹی کے ورکرز اور رہنماﺅں کو ایسا خوفزدہ کر دیا کہ درمیانی لیڈر شپ نے بھی روپوشی اختیار کرلی۔ باپ کی لاڈلی پنکی، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پاپا کو بچانے کیلئے میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا، لیکن ان کو کبھی سکھر جیل میں اور کبھی گھر میں قید کرکے ان کی آواز دبا دی گئی۔ ایک بار غیر رسمی بات چیت کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ دوران حراست ایسا وقت بھی آیا کہ سب جیل میں کھانے پینے کی اشیاءکا داخلہ ہی روک دیا گیا تو میں نے گھر میں پڑی مچھلی لائم اور نمک کے ساتھ سورج کی تپش میں جیسے تیسے کرکے پکا کر کھائی۔ جیل کی قید اور مسلسل صعوبتوں کے باعث ایک کان کی قوت سماعت بروقت علاج کی اجازت نہ ملنے پر ختم ہو گئی۔ جون اور جولائی کے گرم دنوں میں انتہائی زیادہ درجہ حرارت میں جیل کی کوٹھڑیوں میں وقت گزارنا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ محترمہ نے اپنی جدوجہد جاری رکھی، لیکن اپنے پاپا کو جنرل ضیاءکے طاقتور جبڑوں سے نہ بچا سکی جس کو ایک عالمی طاقت کی حمایت بھی حاصل تھی اور جس نے ان کے پاپا کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی خواہش پوری نہ کرنے پر عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی، ان کا شروع کیا گیا ایٹمی پروگرام جاری رہا اور آج ایٹم بم کی صورت میں اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے اس سے پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن شومئی قسمت کہ ذوالفقار علی بھٹو کواپنی زندگی میں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا، تاہم وہ پاکستانیوں کے دلوں اور ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا جو مشن ادھورا چھوڑا تھا، بابا کی پنکی نے اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے بڑی جرا¿ت اور بے خونی سے تحریک شروع کی اور اپنے باپ کی سیاسی جانشین اورصحیح معنوں میں سیاسی لیڈر ثابت ہوئیں۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دانشمندی سے اپنے سیاسی پتے کھیلے۔ انہوں نے جلاوطنی کی حکمت عملی اختیار کی جبکہ ضیاءحکومت نے بیرون ملک ان کا اور ان کے بھائیوں کا تعاقب جاری رکھا اور آخر کار ایک عالمی طاقت کے اثر و رسوخ کے باعث شاہ نواز بھٹو کا قتل ہوا، جنرل ضیاءپرعزم اور جوشیلے شاہ نواز بھٹو سے خوفزدہ تھا۔ میں نے بعد میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر کینز میں اس قتل کی تحقیقات کیں اور جب میں وزیراعظم ہاﺅس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم صاحبہ کو اپنی تحقیقات بارے بتا رہا تھا تو وہ دل کو چھونے والے بڑے غمناک اور اداس لمحے تھے جس نے سب کو دل گرفتہ کر دیا۔ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایک بہن اور بیگم صاحبہ کے بطور ایک ماں کے تاثرات اور محسوسات بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بھائی کا یہ قتل اپنے عظیم باپ کی پھانسی کے بعد ملک میں جمہوریت کی بحالی اور استحکام کی قیمت تھی جو ان کو ادا کرنا پڑی۔ بھٹو کے مخالفین نے پراسرار انداز میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے بڑے بھائی کو قتل کرکے نیا صدمہ پہنچایا اور جس کے راز سے تاحال پردہ نہیں اٹھ سکا۔ میں الگ سے کبھی شاہ نواز اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل بارے تفصیل سے لکھوں گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے زندگی بھر مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کیا، کراچی ایئرپورٹ پر پولیس نے ان کی والدہ پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں ان کی یادداشت جاتی رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تمام تر مشکلات کے باوجود والدہ کی موت تک ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت کی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ جرا¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ڈکٹیٹر کے دباﺅ کے آگے کبھی ہار نہیں مانی۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ان کا عروج جاری رہا۔ ہر نیا دن ان کیلئے مقبولیت و ترقی کی نئی نوید لایا اور پھر ساری دنیا نے اس عروج اور مقبولیت کا نظارہ کیا جب محترمہ لاہور آئیں تو لاکھوں لوگوں کا مجمع ان کے استقبال کیلئے لاہور ایئرپورٹ امڈآیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری جلاوطنی کے زمانے میں انکے سترہ ارکان اسمبلی انکا ساتھ چھوڑ کر ڈکٹیٹر کی حکومت کے ساتھ مل گئے۔یہ لوگ ایک دن قبل محترمہ کے ساتھ ظہرانے میں شریک ان کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا رہے تھے۔ میں نے ان کو اس دن خاصا اداس پایا۔ وہ ایک عظیم لیڈر تھیں، مجھے یاد ہے جب ہم مسٹر تاکسن شیناواٹرا کی دعوت پر جو تب تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھے۔ بنکاک میں تھے محترمہ کی تقریر آخری دن ہونا تھی، تو کانفرنس میں شریک متعدد سربراہان مملکت نے محض انکی تقریر سننے کی خاطر اپنی اپنی فلائٹیں موخر کردیں اور محترمہ نے اس دن جمہوریت کے موضوع پر جو تقریر کی، وہ فی الواقع لاجواب اور کانفرنس کا حاصل تھی۔
ان کی سوچ تھی کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کو ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے سرپھٹول کے بجائے باہم مل کر کام کرنا چاہئے اسکے نتیجے میں آخر کار 2006ءمیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا جس پر لندن میں میری رہائش گاہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف کے دستخط ہوئے۔
محترمہ ڈکٹیٹر کو نکالنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن اس جدوجہد میں اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔میں نے محترمہ مرحومہ کے ساتھ کئی حیثیتوں میں کام کیا۔ ایف آئی اے کا سربراہ رہا، پھر جلاوطنی کے ایام میں انکے مددگار اور نمائندے کے طور پر، جنرل پرویز مشرف، ایم کیو ایم اور عالمی لیڈروں سے مذاکرات میں حصہ لیا، ان کی رہنمائی میں کام کرنا منفرد تجربہ تھا۔ مرحومہ ہر کام بے عیب دیکھنے کی قائل تھیں۔
میں نے آصفہ زرداری بھٹو کو بھی بڑا ذہین پایا۔ یہاں اس حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ تقریباً وسط جون کی بات ہے محترمہ کو امریکہ میں لیکچر کے لئے جانا پڑا۔ تینوں بچوں بلاول، بختاور، آصفہ کو لندن کے فلیٹ میں اپنی خادمہ سیتا کے پاس چھوڑ گئیں۔ 20 جون کو آدھی رات سے قبل آصفہ نے مجھے موبائل پر کہا ”انکل! ماما کی کل سالگرہ ہے اور میں اس موقع پر جب وہ کل 6 بجے صبح واپس پہنچیں تو انہیں سرپرائز دینا چاہتی ہوں اور اس مقصد کی خاطر میں فلیٹ کو کسی خاص چیز سے آراستہ کرنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ میں نے اس خواہش کے پیش نظر فلیٹ کو غیرمعمولی طور پر راستہ اور پیراستہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ صبح میں محترمہ کو لینے ہوائی اڈے کے ٹرمینل 4 پر پہنچ گیا۔ بہرکیف پرواز آئی اور میں انہیں لے کر فلیٹ پر پہنچ گیا جو چوتھی منزل پر تھا۔ وہ فلیٹ میں داخل ہوئیں تو تینوں بچوں نے بآواز بلند ”ہیپی برتھ ڈے ماما“ کے نعروں سے استقبال کیا۔ یہ منظر دیدنی تھا۔ مرحومہ کو بچوں سے کس قدر محبت تھی، مجھ سے زیادہ شائد کوئی نہ جانتا ہو۔ وہ ایک عظیم بیوی بھی تھیں، وہ ہمیشہ آصف صاحب کےلئے دست بدعا رہتیں اور ٹیلی فون پر قرآن مجید کی آیات کریمہ پڑھ کر انہیں دم کرتیں اور ان کی صحت و سلامتی کی دعا کیا کرتیں۔
مرحومہ سیاسی اور انتقامی کارروائیوں کا لمبے عرصے تک نشانہ بنتی رہیں، خصوصاً انہیں اور آصف علی زرداری کو وزیراعظم نواز شریف اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس راشد عزیز کی براہ راست ہدایات کے تحت اس حوالے سے ہمیں انٹیلی جنس بیورو کے ایک اہلکار کی ٹیپ کردہ گفتگو ملی جس میں اس تمام منصوبہ بندی کا ذکر تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت کے تحت اس ٹیپ شدہ گفتگو کو عام کر دیا گیا۔ اب یہ تاریخی حقیقت بن چکی ہے کہ ہم نے کس طرح اس شرمناک فیصلے کو سپریم کورٹ سے تبدیل کرایا۔ میں اس پر بھی ضرور لکھوں گا کہ ہمیں اسے شائع کرانے میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں رانا رحیم کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے قوم کی خدمات کی خاطر اپنی نوکری قربان کر دی۔ یہ کہانی سنڈے ٹائمز لندن میں چھپ چکی ہے جس نے (اس کہانی کے) تمام کرداروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وہ اپنے مقدمات کی پیروی کے موقع پر آصف علی زرداری کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوا کرتی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے کتنا لگاﺅ تھا بچے (بلاول، بختاور اور آصفہ) بڑے ہو رہے تھے اور ان کا باپ جیل میں تھا۔ بھٹو خاندان کی یہ المناک کہانی ہے، انہیں اس لئے انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ غریبوں کے حقوق کی بات کرتا تھا اور اس نے غریب کو زبان دی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹوآپ کی روح یہ دیکھ کر یقیناً مطمئن اور مسرور ہوتی ہو گی کہ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ بلاول بھٹو زرداری اب نوجوان ہو چکا ہے اور اپنی پارٹی کی قیادت سنبھال چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ اسے کہا کرتی تھیں کہ میں انشاءاللہ تمہیں اپنی زندگی میں ہی وزیراعظم پاکستان بنتا دیکھنا چاہوں گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بلاول بھٹو انپی دونوں بہنوں (جن کی اہلیتیں اور صلاحیتیں شک و شبہ سے بالا ہیں) پاکستان کو درپیش لاتعداد چیلنجز سے نکال لے جائے گا۔ میرا ایمان ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ نہ بنایا جاتا تو وہ آج بھی ملک کی خدمت کر رہی ہوتیں اگرچہ وہ ہم سے سدا کے لئے جدا ہو چکی ہیں لیکن ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی، ان کا سیاسی ورثہ اور فراست، عوام اور خصوصاً پارٹی ورکرز کے سینوں میں ہمیشہ موجزن رہیں گے، مرحومہ نے دو آمروں کے خلاف جنگ لڑی اور دونوں کو شکست دی، وہ آخری دم تک جمہوریت کی جنگ لڑتی رہیں۔
آیئے! مل کر دعا کریں حق تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔ آمین!