جمعرات ‘ 6 شوال 1439 ھ ‘ 21 جون 2018ء
دوسری شادی کا انکشاف.... خواجہ سعد رفیق کی پہلی اہلیہ نے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔
خواجہ سعد رفیق کو دوسری شادی ظاہر کرنا مہنگا پڑ گیا ہے، ان کی پہلی بیگم نے احتجاجاً یا اپنی مرضی سے الیکشن کمشن میں داخل اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ لگتا تو یہی ہے خواجہ صاحب نے بیگم اول کی مرضی اور اجازت کے بغیر ہی دوسری بار سر پر سہرا سجایا اور وہ بھی چھپ کر....! مگر عشق اور مشک کب چھپتے ہیں۔ اس وقت بھی جب سعد رفیق دوسری مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوئے اخبارات سے یہ خبرپھیلی مگر بہت سے لوگوں کی طرح ان کی پہلی بیگم نے بھی یقین نہیں کیا ہو گا کہ اب خواجہ جی کی عمر نہیں ایسی حرکت کرنے کی.... اب سوچ رہی ہوں گی اگر میں نے پہلے ہی میڈیا کی بات پر یقین کر لیا ہوتا، ایکشن لیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ اس وقت تو سعد رفیق نے نجانے کس طرح ہاتھ جوڑ کر منتیں کر کے بیگم اول کو اپنی وفاداری اور تابعداری کا یقین دلایا ہو گا، بیگم کو راضی کیا ہو گا مگر اب کیا ہو گا اب تو کاغذات نامزدگی میں انہوں نے اپنی دوسری شادی کا جرم بھی قبول کر لیا ہے۔ یوں صادق و امین بننے کے چکر میں اپنی خفیہ شادی بے نقاب کر دی، اب خدا کرے ان کی بڑی بیگم حالات کو سنبھال لیں ورنہ الیکشن کے ساتھ ساتھ گھریلو امن بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ شادی کرنا جرم نہیں مگر اسے چھپانا بہرحال اچھا نہیں ہوتا، جلد یا بدیر پتہ تو چل ہی جاتا ہے پھر حالات کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے، اسی صورتحال سے خواجہ جی اب دوچار ہیں۔ اب ”دیکھیںہوتا ہے کیا قطرے پہ گہر ہونے تک“
٭....٭....٭
اسرائیل برطانوی شہزاد ہ ولیم کی طرف سے القدس کو فلسطین کا حصہ قرار دینے پر چراغ پا
بھلا اس میں سیخ پا ہونے والی کون سی بات ہے، سچ تو خود بخود تسلیم شدہ ہوتا ہے، اپنی حقانیت کے لئے اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شہزادہ ولیم نے بجا طور پر اس حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ القدس فلسطین کا حصہ ہے، اس میں جھوٹ کیا ہے۔ کیا اسرائیل نے زبردستی القدس پر قبضہ نہیں کیا ، کیا القدس پر دنیا اسرائیلی موقف کو درست تسلیم کرتی ہے۔ یہ تو امریکی صدر ٹرمپ کی غنڈہ گردی ہے کہ زبردستی القدس کے مسئلے پر اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ورنہ پوری دنیا القدس کے مسئلہ پر فلسطینی موقف کی حامی ہے۔ شہزادہ ولیم کا بیان بھی اسی سچائی کا اظہار ہے جس پر اب اسرائیلی حکومت کو مرچیں لگ رہی ہیں۔ اسرائیل ایک غاصب قوت ہے جو جبراً اسرائیل کے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو بے دخل کر کے وہاں یہودی آباد کاروں کو لا کر آباد کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کے اہم علاقوں اور شہروں کو مکمل یہودی آبادی والا ظاہر کر سکے۔ صرف یہی نہیں وہ وہاں تمام مسلم تہذیبی، مذہبی و ثقافتی نشانات تک مٹانے کے درپے ہے۔ یہ سب کچھ وہ امریکہ کی شہہ پر کر رہا ہے۔ یہ تو ہمارے عرب حکمرانوں کی بے حسی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور اسرائیل کی ریشہ دوانیوں پر خاموش ہیں مگر دنیا والے تو سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
پارکوں میں داخلے کیلئے ٹکٹ اور پارکنگ فیس میں اضافہ کی سفارش
پہلے ہی کون سی تفریحی سہولتیں عوام کو دستیاب ہیں کہ اب پارکوں میں داخلے کیلئے ٹکٹ لگانے اور گاڑیوں کی پارکنگ فیس میں بھی اضافہ کی توپ چلائی جا رہی ہے۔ کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو ہسپتال ویران ہونگے۔ یہ مشہور کہاوت ہے مگر ہمارے حکمران ادارے اس کہاوت کے الٹ چلنے میں عافیت محسوس کرتے ہیںاسی لئے تو وہ عوام سے سستی تفریح کی یہ واحد سہولت بھی چھین رہے ہیں۔ تفریحی پارک عوام کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد پیسے بٹورنا نہیں ہوتا۔ اول تو ہمارے ہاں تفریحی پارکوں کا وسیع باغات بنانے کا شوق ہی نہیں رہا۔ یہ چند ایک بڑے بڑے باغات جو نظر آتے ہی یہ یا تو مغل دور کے ہیں یا انگریزوں کے دور کے‘ وہ بھی تعمیر کے نام پر سکڑ رہے ہیں۔ ان کا رقبہ ہڑپ ہو رہا ہے،کئی باغات تو منظر سے ہی غائب ہوگئے ہیں۔ پھر بھی جو کچھ ہے غنیمت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چند ایک نئے باغات وجود میں آئے ۔ اب ان باقی رہ جانے والے باغات میں داخلہ ٹکٹ لگا کر یہاں آرام کے لئے سیر و تفریح کے لئے آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ خدارا کچھ کام روپے کمانے سے ہٹ کر بھی کئے جائیں، عوام کو اور کچھ نہیں تو کم از کم مفت تفریح سے تو محروم نہ رکھا جائے۔ باغات میں داخلے پر ٹکٹ ناروا اقدام ہے، اس سے باز رہنا ہی اچھاہے۔
٭....٭....٭
جمشید دستی 2013 میں ایم اے تھے اب 2018 الیکشن میں بی اے پاس ہو گئے۔
شیخ رشید کی طرح جمشید دستی کو بھی ملک و قوم کی فکر کھائے جاتی ہے اور یہ دونوں اندر ہی اندر سب کچھ کھا کر ”وچوں وچوں کھائی جا تے اتوں رولا پائی جا“ کی اداکاری کرتے پھرتے ہیں۔ دوسروں کے عیب تلاش کرنے، ناچنے گانے کی ویڈیو بنانے، شراب کی بوتلوں کی بوریاں جمع کرنے والے جمشید دستی جیسے باکردار شخص کی اپنی یہ حالت ہے کہ موصوف پر پائپ لائنوں سے پٹرول چوری کرنے کے علاوہ بھی کئی الزامات ہیں۔ ان کے کاغذات نامزدگی میں جس طرح ان کی تعلیمی حالت کو ریورس ہوتے دکھایا گیا ہے وہ بذات خود معمہ ہے۔ جو شخص 2013 کے الیکشن میںایم اے کی تعلیمی قابلیت رکھتا ہے وہ کس طرح 2018 میں بی اے پاس ہو گیا۔ کیا ایم اے کرنے کے بعد جمشید دستی نے بی اے کیا، اگر ایسا ہے تو یہ بڑے کمال کی بات ہے! ہمارے سیاستدان ایسے کمالات دکھانے کے ماہر ہیں۔ کئی معزز سیاستدانوں نے تو بی اے کرنے کے بعد میٹرک بھی کر لیا ہے۔ یہی حال دستی جی کا ہے، وہ بھی تو سیاستدان ہی ہیں۔ ویسے بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، اے سی میں رہتے ہیں مگر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے ہمیشہ گدھا گاڑی استعمال کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ وہ کس طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ شیخ رشید اور جمشید دستی دونوں سیاسی سرکس میں جوکر والا کردار ادا کرنے میں ماہر ہیں۔ اب دیکھنا ہے ان کی تعلیمی قابلیت میں بتدریج کمی کہیں انہیں میٹرک یا مڈل کے درجے تک نہ پہنچا دے۔ معاشی اصطلاح میں اسے ترقی معکوس بھی کہتے ہیں۔
٭....٭....٭