ڈالر کی مہنگائی معیشت تیزی سے روبہ زوال؟
عید کی چھٹیوں کے بعد پہلے ہی کاروباری دن روپے کی قدر مزید کم ہو گئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 124 روپے سے تجاوز کر گئی۔ گزشتہ دس روز میں روپے کی قدر میں 5.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر کی قیمت اس حد تک پہنچی ہے۔ اسی ماہ کے پہلے بیس روز کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 6روپے 12پیسے کی کمی ہو چکی ہے۔ اس سے قبل مارچ اور دسمبر میں بھی حکومت نے روپے کی قدر میں 5.5فیصد کمی کی تھی۔
روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کمزور معیشت کی عکاس ہے، بظاہر تو اسکی وجہ یہ ہے کہ درآمدات اور برآمدات میں فرق بہت زیادہ ہو گیا ہے لیکن زوال کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اقتصادیات کا شعبہ چلانے کیلئے خالی خولی ماہر معاشیات کی نہیں بلکہ سچ مچ کے ایک جادوگر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی معیشت کو چلانا کون سا مشکل ہے جس میں درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ ہوں۔ پاکستان کی حد تک معیشت کو تو یہ سہارا بھی میسر نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی معجزہ رونما ہونے کی توقع ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران توانائی کے بحران نے صنعتی اور زرعی دونوں شعبوں کو متاثر کیا۔ عالمی مارکیٹ میں، زبردست مقابلہ ، چاول، گندم اور کپاس کی قیمتوں میں کمی کے باعث نہ صرف زر مبادلہ کا حجم بری طرح کم ہوا بلکہ کاشتکار اور صنعتکار دونوں متاثر ہوئے۔ البتہ اس دوران اسحاق ڈار کی صورت میں وزارت خزانہ کے منصب پر ایک ایسی شخصیت تھی جو اپنی ذات میں جیسی بھی تھی یہ ماننا پڑے گا کہ موصوف 112یا 113روپے سے ڈالر کو واپس 99روپے تک لے آئے۔ اب وہ ”قومی مجرم“ کی حیثیت سے بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ ان کے منظر سے ہٹتے ہی ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اسی دوران سیاسی عدم استحکام، پکڑ دھکڑ، مقدمے اور جیلیں یہ سارے عناصر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے۔ کرپٹ عناصر کسی صورت قابل معافی نہیں، ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کو عبرت کا نشان بنانا بھی درست، لیکن افسوس کہ جس طریق کار کو ہم نے ضروری جانا، وہ قومی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ہمیں اس سے فائدے کی بجائے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معیشت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ سنبھلنے کی کوئی صورت نہیں اور مشکل یہ کہ روپے کو ناقدری کی اس سطح تک پہنچانے کی ذمہ داری لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔روپیہ ڈالر کے مقابلے میں ایک پیسہ سستا ہوتا ہے تو مہنگائی دو پیسے بڑھ جاتی ہے۔ عوام تو ووٹ دے کر کسی کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دینگے لیکن وہ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے نئی حکومت کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ آج ساری سیاسی جماعتیں، اقتدار کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں لیکن جب ایسی معیشت سے واسطہ پڑیگا توجیتنے والے اپنی جیت کی خوشی زیادہ عرصہ قائم نہیں رکھ سکیں گے!۔