کاغذات کی منظوری و استرداد دہرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہئے
انتخابی شیڈول کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوگیا ، اس مرحلے میں سینکڑوں امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے اور بڑی تعداد میں مسترد بھی ہوئے۔ عمران خان کے دو حلقوں سے کاغذات مسترد جبکہ تین سے منظور ہوئے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، عائشہ گلالئی اور مہتاب عباسی کے کاغذات بھی مسترد کر دئیے گئے۔ عمران خان اسلام آباد اور میانوالی کے حلقوں میں کاغذات مسترد ہونے پر ٹربیونل میں اپیل نہ بھی کریں تو بھی وہ باقی تین حلقوں سے الیکشن لڑ سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے قوانین دو جمع دو برابر چار کی طرح کلیئرکٹ ہونے چاہئیں۔ اگر ایک حلقے سے کسی امیدوار کے کاغذات منظور ہوتے ہیں تو دوسرے سے کیونکر مسترد کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک حلقے سے صادق اور امین نہ ہونے پر کسی امیدوار کے کاغذات مسترد ہونے پر دوسرے حلقے سے کیسے منظور ہو سکتے ہیں۔ یہ دہرا معیار ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ ایک امیدوار پانچ پانچ چھ چھ حلقوں سے انتخاب لڑ رہا ہے۔ ایسا ہر بار انتخابات میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بڑے بڑے لیڈر بھی کبھی تمام حلقوں سے نہیں جیت پاتے اور کئی ایک سے زیادہ حلقوں سے جیت بھی جاتے ہیں جن پر ضمنی الیکشن ہوتا ہے جس کے اخراجات قومی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ کسی بھی امیدوار کو زیادہ سے زیادہ بیک وقت ایک قومی اور صوبائی حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے زیادہ حلقوں پر قسمت آزمائی کرنی ہے تو ضمنی الیکشن کا خرچہ اس امیدوار کے ذمے کیا جائے۔