بھارت کے پاس اب کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں
محبوبہ مفتی کا استعفیٰ‘ مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ اور مودی سرکار کا مزید طاقت کے استعمال کا عندیہ
مقبوضہ کشمیر میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد بی جے پی کی مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کردیا ہے اور مقبوضہ وادی میں حریت پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید تین کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی ضلع پلوامہ کے علاقے ترال میں کی جبکہ پامپور کے گاﺅں سامبورہ میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے تلاشی اور محاصرے کے دوران چار نوجوانوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اور انہیں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے آگے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس میں مظاہرین کی طرف سے فوجیوں کو کشمیری نوجوانوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر بزدل کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دوسری جانب حریت قیادت نے بھارتی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں کے قتل کے مسلسل رونما ہونیوالے واقعات کیخلاف آج بروز جمعرات مکمل ہڑتال کی کال دے دی ہے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے تناظر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اتحاد غیرمستحکم ہوگیا تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مشترکہ حکومت کے دور میں تشدد کی لہر میں مسلسل اضافہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے بااثر کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو نامعلوم افراد کی جانب سے اس وقت گولی مار کر شہید کیا گیا جب وہ اپنے دفتر سے نکلے تھے۔ شجاعت بخاری کی موت کو بی جے پی کی جانب سے اتحاد ختم کرنے کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ محبوبہ مفتی نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ سری نگر دشمن کا علاقہ نہیں‘ مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہوگا‘ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور کشمیریوں سے بات ہونی چاہیے۔ بزرگ حریت لیڈر سیدعلی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری نئے بھارتی مظالم پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ہم زندگی کی آخری سانسوں تک آزادی کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ویسے تو بھارت میں انتہاءپسند بی جے پی کی مودی سرکار کا قیام عمل میں آتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کا سلسلہ تیز ہوگیا تھا تاہم اس وقت مقبوضہ وادی میں جس بربریت کے ساتھ نہتے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کو شہید کرنے کا سلسلہ تیز کیا گیا ہے‘ اسکے پیش نظر عالمی رائے عامہ بہت تیزی سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ہموار ہورہی ہے اور اسکے تناظر میں ہی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی کے نکتہ¿ آغاز سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اگر مودی سرکار اس بات پر مطمئن ہوتی کہ بھارتی سکیورٹی فورسز اپنے مظالم کے نت نئے ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی آواز دبانے میں کامیاب ہو جائیں گی تو اسے اپنی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد ختم کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوتی جبکہ مودی سرکار کو اس وقت سب سے زیادہ یہی پریشانی لاحق ہورہی ہے کہ بھارتی فورسز بھی نہتے کشمیری نوجوانوں کی طرف سے جاری مزاحمت کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہیں جس کا اندازہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر طاقت سے حل ہونیوالا نہیں ہے۔
یہ متحرک کشمیری نوجوانوں کی دنیا بھر میں بلند ہونیوالی آواز ہی کا ثمر ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر پہلی بار اپنی باضابطہ رپورٹ جاری کرنا پڑی جس کے باعث اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے روبرو اصل بھارتی چہرہ بے نقاب ہوا تو بی جے پی سرکار نے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ مزید تیز کردیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد ایک مو¿ثر اور متحرک کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو شہید کردیا گیا۔ اس واقعہ پر انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں بھارت کیخلاف غم و غصے کی نئی لہر اٹھی تو مودی سرکار مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور اس نے اپنی اتحادی اور کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو مقبوضہ وادی میں کشمیری نوجوانوں کی جانب سے کی جانیوالی مزاحمت کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا اور پھر پی ڈی پی کے ساتھ حکومتی اتحاد ختم کردیا۔ مقبوضہ کشمیر میں یکے بعد دیگرے یہ واقعات جس تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں وہ اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں امن و امان کی صورتحال اب مودی سرکار کی گرفت سے نکل چکی ہے چنانچہ مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اب مودی سرکار کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو پوری ریاستی طاقت کے ساتھ روکنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے جبکہ کشمیری عوام بھی بھارتی جبر کا ہر ہتھکنڈہ اپنے سینوں پر برداشت کرنے کے نئے عزم کے ساتھ باہر نکل رہے ہیں اور اس وقت پوری مقبوضہ وادی میدانِ کارزار بن چکی ہے جسے متحرک سوشل میڈیا کے باعث دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کرنا اب مودی سرکار کیلئے ممکن نہیں رہا چنانچہ کشمیریوں کی پرعزم جدوجہد آزادی کا یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جو انہیں اپنی جدوجہد کی کامیابی کی نوید سنا رہا ہے۔
مودی سرکار نے جون 2016ءمیں نوجوان حریت لیڈر برہان وانی کو ریاستی جبر کے بدترین مظاہرے کے تحت شہید کیا تو اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے اکابرین کی شروع کی گئی تحریک آزادی کو ایک نیا رنگ دے دیا اور نئے جذبے سے سرشار کردیا۔ انکی آواز دبانے کیلئے مودی سرکار نے اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں کے ذریعے ریاستی جبر کا نیا ہتھکنڈہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں اب تک سینکڑوں کشمیری شہید اور ہزاروں مستقل اندھے اور اپاہج ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جاری کی گئی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کشمیری عوام پر توڑنے جانیوالے انہی بھارتی مظالم کو اجاگر کیا گیا ہے جس پر اب مودی سرکار کشمیری عوام پر جبر کا کوئی نیا حربہ اختیار کرنے اور بھارتی فورسز کو زیادہ شدت کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کے آگے جھونکنے کا عندیہ دے رہی ہے مگر کشمیری عوام اس وقت اپنے حق خودارادیت کیلئے جتنے پرعزم ہیں اسکے پیش نظر بھارتی ریاستی جبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ انکے آگے نہیں ٹھہر سکے گا اس لئے مودی سرکار کو اس زعم میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے اور بھارتی فوج کے نئے دستے مقبوضہ وادی میں داخل کرکے وہ پرعزم کشمیریوں کی آواز دبانے میں کامیاب ہوجائیگی۔ اسکے برعکس کشمیریوں کا جذبہ مزید تیز ہوگا چنانچہ ان پر جتنے بھارتی مظالم توڑے جائینگے‘ وہ سب انکی کامیابی کے راستے ہموار کرتے جائینگے۔ اگر کانگرس آئی کے دور کے بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ کے بعد اب بی جے پی کے موجودہ دور کے بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی مودی سرکار کو یہی باور کرا رہے ہیں کہ طاقت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں ہے اور اسی طرح مودی سرکار کا دم بھرنے والی مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی استعفیٰ دے کر مودی سرکار کو یہی آئینہ دکھا رہی ہیں کہ طاقت کا استعمال مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے بلکہ پاکستان اور کشمیریوں سے بات چیت کے ذریعے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہوگا تو مودی سرکار کو مزید جنونیت میں مبتلا ہونے اور ریاستی تشدد کا کوئی نیا حربہ اختیار کرنے کے بجائے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے دنیا بھر میں اٹھنے والی آوازوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے اور اپنی ہٹ دھرمی سے علاقائی اور عالمی امن تہہ و بالا کرنے سے باز آجانا چاہیے۔ وہ چاہے جبر کے پہاڑ کھڑے کرلے‘ بھارتی تسلط سے آزادی ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور انکے پاﺅں بہت تیزی سے اس منزل کی جانب گامزن ہیں۔ اب ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ مودی سرکار آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کا سلسلہ شروع کرے اور دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے۔ آج تمام عالمی قیادتیں اور انسانی حقوق کے تمام عالمی ادارے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کررہے ہیں اور اسکی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کو ہی علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت سمجھتے ہیں اس لئے بھارت کو بالآخر مسئلہ کشمیر کے اسی حل کی جانب آنا پڑیگا۔ وہ مزید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریگا تو اسکے نتیجہ میں ہونیوالی تباہی کا بھی خود ہی ذمہ دار ہوگا۔