نیب وزیراعظم کی بات مانے گا تو عوام کہاں جائینگے، کیا کوئی سیاستدان کور کمانڈر بن سکتا ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق عدالتی فیصلہ کی روشنی میں نیب افسران کی برطرفی کیخلاف دائر نظر ثانی کی مختلف درخواستیں خارج کر دی ہیں ۔ عدالتی فیصلہ کے نتیجے میں نیب کے بارہ افسران عالیہ رشید. میجر جنرل ریٹائرڈ شبیر، سید محمد عامر.فرخ نسیم اختر.انصریعقوب.محمد یونس.مرزا سلطان.غلام رسول.میجر ریٹائرڈ طارق اورمیجر ریٹائرڈ سید برہان علی کوبرطرف کیا گیا تھا جنہوں نے عدالتی فیصلہ پرنظرثانی کیلئے الگ الگ درخواستیں دائرکی تھیں۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دوسروں کا احتساب کرنے والے ادارے کا اپنا احتساب بھی ہونا چاہئے ،افسران تو برطرف ہوئے مگر نیب نے جوبنےادی کام ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنا تھا جو نہیں کےا، دائر نظر ثانی اپیلوں سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کچی پنسل سے لکھا گےا اور اب اسے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ، زےا دہ تر بھرتےاں ملٹری دور میں ہوئیں ملٹری حکومت جانے سے ملٹری قانون تو ختم ہوگےا مگر ملٹری آفسران نیب چھوڑنے کو تےار نہیں ، جہاں قوائد و ضوابط نہیں ہوتے وہاں اتھارٹی کو مس یوز کےا جاتا ہے، اگر عدالت سے انصاف مانگا جارہا ہے تو پورا انصاف مانگا جائے ، ایک طرف آئین ہے جو ٹرانسپیرنسی اور فیئرنس کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری جانب ٹی سی ایس رولز( ٹرم اینڈ کینڈیشن آف سروس)ہیں جو فرد واحد نے بنائے ہیں ہم نے آئین و قانون کو دیکھنا ہے جو اس میں فٹ ہوگا وہ ہی اصل میرٹ ہوگا ، مستقبل میں بھرتےاں بذریعہ ایف ایس ٹی ہی ہوں گی ،جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ایک فوجی آفسرکو تےار ہونے میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں قومی مفاد میں اس کا کردار گارڈین جیسا ہے خدا نہ کرے اگر یہ ملک نہ رہا تو پھر یہ کس کو بچائیں گے ، کےا آئین میں ایسی کوئی پرویژن ہے کہ ایک سےاست دان کو کور کمانڈر لگادےا جائے؟رفو گر بڑے ایکسپرٹ ہوتے ہیں آرمی ڈکٹیٹرز نے بھی آئین میں کچھ رفوگری کی ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ کیس کسی فرد واحد کے خلاف نہیں بلکہ ایک چیلنج کیس تھا ۔متفرق نظر ثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔بق ڈی جی نیب آگاہی مہم عالیہ رشید کی نظرثانی اپیل کی سماعت ہوئی تو ان کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ عالیہ رشید کرپشن کے خلاف آگاہی مہم چلاتی تھیںعالیہ رشید ٹینس کی بین الاقوامی کھلاڑی تھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم کھیل کے کھلاڑی کو نیب میں بھرتی کرنے کا حکم کیسے دے سکتا ہے: نیب کو اس وقت کے وزیراعظم کیخلاف ریفرینس دائر کرنا چاہیے تھا، نیب وزیراعظم کی ہدایات مانے گا تو لوگ کہاں جائیںگے؟ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ایسی سفارشی بھرتیوں کیخلاف تو نیب کارروائی کرتا ہے، اس حوالے سے کوئی قانون بناےا گےا ہے کہ وزیر اعظم کا حکم ہی قانون ہے؟ وکیل نے کہا حکم وزیر اعظم نے دےا تھا، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم سابق وزیراعظم کیخلاف ریفرینس دائر کرنے کا حکم دیں،؟نیب کی تو کوئی سپورٹس ٹیم بھی نہیں جس میں عالیہ رشید کو رکھا جاتا، ایسا نہ ہو کل انہیں ایس پی کراچی لگا دیا جائے، کیا کسی کھلاڑی کو ڈائریکٹر فنانس بھی لگایا جا سکتا ہے؟ عالیہ رشید نے کہا کہ نو ٹو کرپشن کا آئیڈیا مجھے حرم پاک میں آیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ نعرہ اچھا ہے لیکن کیا اس سے کرپشن ختم ہوئی کیا نااہل شخص کو بھرتی کروانا کرپشن نہیں۔ عالیہ رشید نے کہا کہ کھلاڑیوں کو پالیسی کے تحت مختلف محکموں میں ایڈجسٹ کیاگیا،مجھے معجزے کے تحت نوکری ملی ا مریکہ میں جرنیل بھی سسٹم کی مضبوطی کے باعث کرپشن نہیں کرسکتے، درخواست گزارعالیہ رشید کے وکیل ایس اے رحمان نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ ان کی موکلہ ایک تجربہ کارافسرتھیں جس نے اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے انجام دیں۔ لیکن عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان کو برطرفی کاسامناکرناپڑا ، سماعت کے دوران ایڈووکیٹ علی ظفرنے مختلف درخواست گزاروں کی طرف سے دلائل دیئے اورعدالت سے استدعاکی کہ نیب افسران کے حوالے سے عدالت نے غیرمعمولی فیصلہ کیاہے اس لئے اس فیصلہ پرنظرثانی کی جائے کیونکہ ان میں سے اکثرتقرریاں پرویزمشرف دورمیں ہوئی تھیں، جس پربنچ کے سربراہ نے ان سے کہاکہ عوامی پیسے سے تنخواہ لینے والے عہدے بانٹنے نہیں چاہیں ۔ ایڈووکیٹ علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو آئین کی طاقت احتےاط سے استعمال کرنی چاہئے عدالت نے فیصلہ جلدی میں ، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جب کیس کا فیصلہ جلدی کرو تو کہا جاتا ہے جلدی کی جب دیر کرو تو کہا جاتا ہے کہ تاخیری حربے استعمال کرکے انصاف میں تاخیر کی جارہی ہے ، علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب چیئرمین کو نیب آرڈیننس 1999 سیکشن 28کے تحت بھرتیوں کا اختےار حاصل ہے ، نیب کے شروع میں 19افسران آرمڈ فورسز سے بشمول ان کے موکل کے وہ بھی نیب کے فاونڈر ممبر ہیں وہ 2002ءمیں حاضر سروس لفٹیننٹ جنرل تھے انہوں بی سی ایس کےا ہوا ہے ، جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ خےال کےا جارہا تھا نیب ایک مضبوط ادارہ ہوگا مگر کےا معلوم تھا کہ اس میں فوجی افسران کا ڈمپ کےا جائے گا،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ سےاسی حکومتیں آنے کے بعد نیب میں کےا تبدیلی ہوئی ، علی ظفر نے کہا کہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ دوران سماعت ایک درخواست گزار نزہت شائستہ نے کہا کہ عالیہ رشید کوئی چیمپین نہیں تیس سال تک قوم کو دھوکہ دےا وزیراعظم کو بھجی گئی سمری تین بار مسترد ہوئی تھی عدالت نے قرار دےا کہ آپ کی درخواست اور موقف عدالت کے سامنے آچکا ہے عدالت اس کو دیکھ لے گی ۔ایڈووکیٹ بابر اعوان ، عبدالرحمن صدیقی نے بھی اپنے اپنے دلائل دیئے ، پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر ڈار نے کہا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نہیں سنا جبکہ وفاع کا کہنا ہے کہ واپس ہونے والے آفسران کی ان کے پاس جگہ نہیں ہے ، جبکہ نیب کے سروس رولز 2002، اب ایف پی ایس سے زریعہ بھر تےاں کی جائیں گئیں ، نیب نے شفاف طریقہ کار کے تحت 73ہزار اسسٹنٹ ڈائریکٹرز بھرتی کیئے ہیں ، انہوں نے نیب آرڈیننس 1999سیکشن 33پڑھا ، جسٹس کھوسہ نے کہ کیس میں اٹارنی جنرل کو 27-A کا نوٹس جاری کےا تھا اب وہ نہیں پیش ہوئے تو کےا کےا جاسکتا ہے عدالت انہیں دفتر سے اٹھا کر نہیں لاسکتی ، جبکہ کیس میں وزارت دفاع کا کےا ذاتی مفاد ہے متاثرین کے بجائے وہ کیونکہ عدالت سے رجوع کررہی ہے؟نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب میں جتنے فوجی افسران بھرتی کیئے وہ ملٹری انٹیلی جنس سے آئی ایس آئی ، آئی بی ونگ سے تھے ان کا تفتیش کا تجربہ تھا جبکہ سول سے بی تجربہ کار لوگ لیئے گئے، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جب میرٹ کے خلاف بھرتےاں ہوتی ہیں تو اس کا اثر دور تک جاتا ہے ، انظامی قوانین میں وہ طریقہ اختےار کےا جاتا ہے جو آئین و قانون کے قریب ترین ہو، ان کا کہنا تھا کہ سیمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والے ایک پائپ فٹر کو پولیس میں سپاہی بھرتی کےا گےا جو ترقی کرتے کرتے تھانے کا ایس ایچ او بن گےا جبکہ کراچی پولیس میں تو اب غیر متعلقہ تجربہ کے حامل لوگ ایس پی ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں، جب ایسے لوگ عہدوں پر فائز ہوں گے تو معاشرے کا ایسا ہی حال ہوگا جو اب ہو رہا ہے، بعدازاں عدالت نے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد نیب افسران کی جانب سے دائر نظر ثانی کی تمام درخواستیں خارج کر دیں۔