بدھ‘ 25 رمضان المبارک ‘ 1438ھ‘ 21 جون 2017ء
کھلاڑیوں کی وطن واپسی شروع، شاندار استقبال
چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد کھلاڑیوں کی مرحلہ وار واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز جو کھلاڑی وطن واپس پہنچے ان میں سے کپتان سرفراز کراچی جبکہ بابر، حسن علی، احمد شہزاد اور فہیم لاہور پہنچے۔ لاہور آنے والے کھلاڑیوں کا شاندار استقبال خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں کرکٹ کے شائقین بھی ائرپورٹ پر موجود تھے۔ فضا نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں آمد پر بھی ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ خوشی کا یہ منظر کوئی کھلاڑی برسوں بھلا نہ پائے گا۔ باقی رہ جانے والے کھلاڑی بھی چند روز میں واپس آ جائیں گے۔
دوسری طرف بھارتی ٹیم بھی اپنے وطن جا رہی ہے۔ سوشل اور بھارتی میڈیا کے کارٹونوں میں ان کھلاڑیوں کو سیاہ اسلامی برقعہ پہنے منہ چھپائے عورتیں بن کر ائرپورٹ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ وہ کہیں بپھرے ہوئے اپنے ”پرستاروں“ کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ ورنہ وہ بھی ان کا وہی حال کر سکتے ہیں جو پاکستانی کھلاڑیوں نے میدان میں ان کا کیا تھا۔ بھارتیوں کو صرف اپنے کھلاڑیوں پر ہی غصہ نہیں انہیں تو اس وقت کشمیریوں پر بھی شدید غصہ آ رہا ہے جنہوں نے پاکستانی فتح کا جشن یوں منایا جیسے کشمیر بھارت میں نہیں پاکستان میں ہے۔ ایک دل جلے سے تو میر واعظ کا خوشی بھرا بیان برداشت نہیں ہو رہا اس نے مشورہ دیا ہے کہ میر واعظ پاکستان جا کر پٹاخے چلائیں۔ یہ ہے سچی بات جو سارے کشمیریوں کے دل کی آواز بھی ہے۔ کاش بھارت سرکار بھی یہ سن لے۔
....٭....٭....٭....٭....
دکانداروں کی عیدی مہم عروج پر پہنچ گئی۔
رمضان المبارک کی رخصتی کی گھڑیاں ہیں۔ روزے دار اجر و ثواب سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ چار سو رحمت برس رہی ہے۔ کیا خاص کیا عام سب فیوض و برکات سمیٹ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے دکاندار اور تاجر بھی کسی سے کم نہیں۔ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے والے سارے تاجر و دکاندار برابر ہیں۔ روزوں نے ان کے دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ان کی روح اور ضمیر پر ہنوز برکات کا نزول ہی نہیں ہوا اگر ہوتا تو وہ اس مقدس ماہ میں بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے سے باز رہتے۔ رمضان میں مہنگائی کا طوفان برپا کرکے انہوں نے عوام کی کمر توڑ رکھی تھی۔
اب عید کی خریداری کا آغاز ہوتے ہی انہوں نے عوام کی جیبیں خالی کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءسے لے کر کپڑے آرٹیفیشل جیولری، جوتے تک عام دنوں سے کئی گنا مہنگے ہو چکے ہیں۔ گویا رمضان پیکج کے بعد اب دکاندار اور تاجر عید پیکج لاگو کر چکے ہیں۔ حیرت کی بات ہے حکومت کی طرف سے اعلان کردہ رمضان پیکج، مہنگائی توڑ پیکج، اتوار بازار، رمضان بازار، جمعہ بازار تک تو علی الاعلان ناکام ہوتے ہیں۔ مگر دکانداروں اور تاجروں کے گٹھ جوڑ سے یہ عید پیکج کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ کسی کی جیب بھرتی ہے کسی کی تجوریاں۔ کیا اس پر کوئی کنٹرول کرکے غریبوں کی دعائیں لے سکتا ہے۔
کراچی سنٹرل جیل میں رینجرز کا آپریشن بھاری مقدار میں ممنوعہ اشیا برآمد
اب جو کچھ وہاں سے برآمد ہوا اگر اس کا تفصیلاً ذکر کرنے بیٹھیں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ سچ کہیں تو اس سارے برآمد ہونے والے سامان سے باقاعدہ ایک چھوٹی موٹی دکان بھی کھولی جا سکتی ہے۔ جس طرح ہر علاقے میں چائنا مال کی مارکیٹیں کھلی ہوئی ہیں۔ خود رینجرز والے بھی انگشت بدنداں ہیں کہ کراچی جیسے حساس شہر کی سب سے بڑی اور مرکزی جیل میں یہ چیزیں اندر کیسے پہنچ گئیں۔ جیل کا عملہ کیا بھنگ پی کر رہتا تھا کہ انہیں یہ سب کچھ جیل میں نظر نہیں آیا۔
برآمد ہونے والی ان اشیاءمیں ائرکولر، واٹر کولر، ٹی وی، ایل سی ڈیز، اوون، بیٹریاں، میوزک ساﺅنڈ سسٹم، گیس سلنڈرز، مختلف اوزار اور موبائلز کے علاوہ نقدی اور منشیات بھی شامل ہیں۔ حکومت کو فرعون اور منا جیسے قیدیوں کا شکرگزار ہونا چاہئے نہ وہ فرار ہوتے جیل سے نہ یہ آپریشن ہوتا۔ ان دونوں کے جیل سے بخیر و عافیت عملے کی ملی بھگت سے فرار نے اس آپریشن کی راہ نکالی۔
اب کون حساب کرے گا کہ یہ سارا سامان کس طرح اندر پہنچا۔ اس سے تو بہت سے پردہ نشین بے نقاب ہوں گے اور ہمارے ہاں پردہ نشینوں کو بے نقاب کرنے کا رواج نہیں اس لئے فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔
....٭....٭....٭....٭....
اللہ تمہیں پوچھے گا، ناقص میٹریل استعمال کرنے والے ٹھیکیدار کو خورشید شاہ کی بددعا
بھلا کوئی بلا صرف دعاﺅں سے ٹلتی ہے۔ رونے دھونے سے کوئی شب غم گزرتی ہے۔ نہیں ناں.... تو پھر ایسے کرپٹ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ٹھیکیداروں کو صرف بددعا دینے سے کیا ہوگا۔ یہ صرف ایک ہی نہیں ایسے ہزاروں ٹھیکیدار قومی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ہمارے سیاستدان حکمران، بیوروکریٹ پھر بھی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے انہیں ہی ٹھیکے دیتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے انہیں بھی ان کا حصہ ملتا ہو گا ورنہ آنکھوں دیکھی مکھی کوئی نہیں نگلتا۔
اپوزیشن رہنما خورشید شاہ جن کی سندھ میں اپنی حکومت ہے۔ سکو رنگ روڈ کے معائنہ کے دوران اس کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال ہوتا دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ کیوں کہ ٹھیکیدار کسی بڑے کا منظور نظر تھا۔ اسے الٹا کیوں نہیں لٹکایا۔ جب حکمران خود کرپٹ عناصر کے خلاف ”ہتھ ہولا“ رکھیں گے اور انہیں زبانی کلامی بددعا دے کر چھوڑیں گے تو کرپشن کیسے ختم ہو گی۔ یہ تو ہلا شیری دینے والی بات ہے۔ سب جان لیں گے یہاں ڈنڈا لے کر پوچھنے والا کوئی نہیں۔ بس عورتوں کی طرح کوسنے دینے والے سب ہیں۔
اب خدا خیر کرے اس رنگ روڈ کی جس کی تعمیر ہی ناقص میٹریل سے ہوئی ہے۔ وہ بیچاری کب تک ٹریفک کا بوجھ سہے گی۔ ڈر ہے کہیں یہ بھی کراچی کے پل کی طرح بنتے ہی ٹوٹ پھوٹ کر بکھر نہ جائے۔
....٭....٭....٭....