مکرمی! حسن نواز، حسین نواز کے بعد میاں برادران بھی جے آئی ٹی میں پیش ہو گئے۔ کچھ حلقے اسے قانون کی حکمرانی تصور کر رہے ہیں اور کچھ حکمران خاندان کے لئے سنگین بحران۔بقول چند صحافتی دانشور! آنے والے دن قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموا ر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قوم سمجھتی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے پانامہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو سیاست دانوں، قانونی ماہرین کی شکایات اور میڈیا کی جائز اور تعمیری تنقید کا ادراک کرتے ہوئے تحقیقات کو توقع سے زیادہ شفافیت عطا کرنی چاہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہ ملکی تاریخ کا نازک ترین مرحلہ ہے۔ اور پوری قوم کی نظریں اس ایک کیس پر مرکوز ہیں۔ اپوزیشن میں موجود سیاسی و دینی جماعتیں گرینڈ الائنس کے لئے اپنے ہاتھ پائوں مارنا شر وع ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میںچوہدری شجاعت کی افطار پارٹی در حقیقت حالا ت کے تناظر میںاہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بعد چوہدری صاحب کا گرینڈالائنس کے بارے میں جنرل مشرف سے ٹیلی فونک تبادلہ خیال اور انکو اعتماد میں لینا حکومت کو الٹی میٹم سے کم نہیں ہے۔ چوہدری شجاعت کا طویل عرصے کے بعد مشرف سے رابطہ بغیر دبائو معلوم نہیں ہو تا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اپنے لئے سوفٹ کارنر رکھنے والی قوتوںکو ناراض کر بیٹھے ہیں۔اگر تو واقعی ایسا ہے تو یہ المیہ ہوگا۔ نواز شریف ایک مرتبہ پھر سے ماضی کی غلطیوں کو دوہرا رہے ہیں۔ ایسی سنگین غلطیاں سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہیں۔ انصاف کے راستے میں کسی بھی قسم کا دبائو انصاف کے راست میں رکاوٹیں حائل کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے ہفتہ کے روز اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ خان صاحب کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہے۔ اگر واقعی کوئی ثبوت خان صاحب پیش کر سکتے ہیں تو اب تک آجانے چاہئے تھے۔ ماضی قریب میں بھی عمران خان کی جانب سے اسی ادارے کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ مگر پھر خود ہی ختم بھی کر دیا گیا۔ عمران خان صاحب کو کوئی مشورہ دینا والا یہ کیوں نہیں سمجھاتا کہ وہ قومی رہنما اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں انکو اگر کسی بھی ادارے سے شکایت ہے تو براہ راست ذاتیات پر اترنے کی بجائے عزت و احترام کا دامن مت چھوڑیں۔ میڈیا کسی بھی موقع پر انیگلنگ کرتا محسوس ہو تو بہت سارے چیک اینڈ بیلنس کے ادرارے قائم ہیں ان سے رجوع کیا جانا چاہے۔ ملک مزید کسی بھی قسم کے انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہے۔ (محمد عمران الحق، لاہور)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024