سنت نبوی کی پیروی میں اپنے بھی چار یار ایسے ہیں جن پر آنکھیں بند کرکے ساری زندگی سے بھروسہ کر رہا ہوں جن میں راحت پیرزادہ ڈاکٹر ارشد مجید زاہد شفیق خان اور میاں اسلم بشیر شامل ہیں۔ زاہد شفیق خان ایسا دوست کہ ہر وقت آپکے لئے کسی خطرے سے بے نیاز کسی بھی مشکل میں آپکے لئے ہر وقت کسی مصلحت کی پرواہ کیے بغیر سر دھڑ کی بازی لگانے والا جانثار اور میاں اسلم بشیر کہ ہر وقت آپکی آواز کا منتظر ڈاکٹر ارشد مجید شرافت اور تحمل کا مجسمہ حاتم طائی کی صفات سمیٹے ہوئے ہر وقت یاروں کے مشکل وقت میں انکی مدد کیلئے ہمہ تن گوش رہی بات راحت پیرزادہ کی پیروں کی اولاد ہے اور پیروں والی تمام صفات اور خوبیاں سمیٹے زمانہ شناس یاروں کا یار دشمنوں کا دشمن محسنوں کی قدر کرنے والا اور دوستی کے نام کی لاج رکھنے والا لیکن اسکی سب سے بڑی خوبی اسکی زندہ دلی ہے اپ اسکی صحبت میں کبھی بوریت محسوس نہیں کرتے۔ کل شب ٹی وی پر بیٹھے ہم ایک ٹاک شو دیکھ رہے تھے جس میں ایک شرکاء گفتگو یہ فرما رہے تھے کہ اب صرف پانچ اْوَر کا کھیل رہ گیا ہے اور میاں نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ پیرزادہ صاحب کی ظرافت کی حس پھڑک پڑی۔ سْنانے لگے کہ ایک دفعہ میں اور میرا ایک کزن جو گردش ایام کی سختی کی وجہ سے اپنے مالی معاملات کی گرفت کی وجہ سے مشکل صورتحال سے دوچار تھا ایک میلے میں چلے گئے۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں میں پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا جبکہ میرے کزن کے کپڑوں کی کفیت اسکے مالی حالات کو بیان کر رہی تھی۔ چلتے چلتے ہم ایک طوطا فال نکالنے والے کے پاس رْک گئے۔ فال والے کو پہلے میں نے اپنی فال نکالنے کا کہا۔ طوطے نے جو کارڈ نکالا اس پر لکھا تھا کہ آنے والے دن آپکے لئے مزید خوش بختی کی نوید لا رہے ہیں مالی آسودگی اور کئی اور مسرتیں آپکی راہ دیکھ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں اب ہمارے کزن صاحب آگے بڑھے اور انھوں نے طوطا فال والے کو اپنی فال نکالنے کا کہا۔ اب جو طوطے نے کارڈ اٹھایا اس پر لکھا تھا کہ آنے والے دنوں میں مزید تنگی اور سخت آزمائشوں کیلئے تیار رہیے۔ بھاری نقصان کا خدشہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ پیرزادہ کہتا ہے کہ فال نکالنے والے کا کارڈ پر لکھے یہ کلمات کا ابھی پڑھنا ہی تھا کہ میرا کزن اسکو بھاری بھرکم گالی سے مخاطب کرتے ہوئے بولا اْوے تیرا یہ طوطا لوگوں کے ظاہری لباس کی مناسبت سے انکے مستقبل کی پشین گوئی کرتا ہے۔ پیرزادہ کہنے لگا کہ پہلے مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اس جے آئی ٹی کے قصے کے بعد میاں نواز شریف اقتدار سے فارغ ہو جائے گا لیکن اب جب پنڈی کے اس سیاسی نجومی نے جو کہ آنے والے ہر تین مہینوں کو اس وقت کی حکومت چاہے وہ پیپلز پارٹی کی تھی یا اب نون لیگ کی ہے بڑا اہم قرار دیتا ہے اور جسکی ایک پیشینگوئی بھی آج تک سچ ثابت نہیں ہو سکی اگر وہ اب پانچ اْوَرز کی بات کر رہا ہے تو میں شرط لگا کر کہتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی حکومت اس دفعہ بھی بچ جائے گی۔ بقول پیرزادہ یہ سیاسی نجومی بھی طوطے فال والے طوطے کی طرح دھڑے بندی کی بنیاد پر پیشینگوئی کرتا ہے اگر میاں نواز شریف نے اس طوطے کو مشرف کی دوسری باقیات کی طرح نون لیگ کے نکاح میں دوبارہ لے لیا ہوتا تو یہ طلال چوہدری سے زیادہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے چکروں میں ٹر ٹر کر رہا ہوتا۔
پیرزادہ کی باتیں اپنی جگہ لیکن پنڈی کا یہ سیاسی نجومی جب یہ بات کرتا ہے کہ پاکستان کی کونسی سیاسی پارٹی ہے جسکا پودا پنڈی کی مشہور زمانہ نرسری میں پروان نہیں چڑھا تو لوگ اس حقیقت سے چاہے اختلاف کریں میں اسکے اس دعویٰ سے اتفاق کرتا ہوں۔ قائرین پاکستان کی سیاست کس قدر پراگندہ اور غلاظت سے بھری ہے اسکا اگر جائزہ لیں تو یقین جانیئے لفظ سیاست ایک گالی لگنا شروع ہو جاتی ہے حالانکہ کہتے ہیں سیاست ایک عبادت ہے لیکن کیا کریں ہماری بدنصیبی کی انتہا دیکھیں ہم نے تو اب اپنی دینی عبادات کو بھی اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔ ہمارے پیروں نے ضعیف العتقادی کا سہارا لیکر کیسے کیسے ڈھونگ رچالئے ہیں ہمارے مذہبی سکالرز نے مذہبی عقائد کو اچھال کر اپنی کیسی کیسی دوکانداری چمکا لی ہے اور تو اور آجکل نعت خوانوں نے جو اندھی مچا رکھی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھْپی نہیں۔ سیاست کوعبادت کا درجہ دینے والوں کے ذاتی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ان دوغلے چہروں والے کا اصل کس قدر بھیانک ہے۔ سوشل میڈیا پر ہماری ایک دوست ہیں فوزیہ شفقت جنکی بیباک پوسٹوں کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ یہ عورت سعادت حسن منٹو کی بہن لگتی ہے اسکی ایک حالیہ پوسٹ جو کہ کچھ اسطرح ہے ’’اگر آپکے دو چہرے ہیں تو کسی ایک کو تو دیکھنے کے قابل بنائیں‘‘ ان سیاستدانوں کیلئے ایک گہرا پیغام لیے کھڑی ہے جنکا کردار پوری قوم کے سامنے ہے۔ میری صحافتی تاریخ گواہ ہے کہ میں نے جب سے قلم آرائی شروع کی ہے میں میاں نواز شریف اور نون لیگ کا انکے کردار اور انکی پالیسیوں کی وجہ سے بہت بڑا نقاد ہوں لیکن غیر جانبداری کا تقاضا یہ ہے کہ جب اپ کسی پر انگلی اْٹھائو تو یہ بھی تو دیکھو کہ اپ کتنے پارسا ہو۔ یقین جانئیے چیف جسٹس ثاقب نثار کے یہ ریمارکس کہ 62 اور 63 کی کاروائی پر چل نکلے تو پھر شائد ہی پاکستان میں کوئی ایسا ہو جو اس سے بچ نکلے تاریخ کا ایک کڑوا سچ ہے۔ چلیں باسٹھ تریسٹھ کی کاروائی کا ذکر چل نکلا تو ٹی وی والے طوطے کے مطابق نہیں اور نہ ہی اس میں ہمارے چڑے کی رپورٹ کا کوئی تعلق ہے کیونکہ وہ جو رپورٹیں دے رہا ہے انہیں اگر یہاں بیان کر دیا تو کئی نیوز لیکس گلے پڑ جائیں گی اور پھر ویسے بھی گرمیوں کے عذاب کے بعد شدید حبس کے موسم کی آمد آمد ہے اسلئے خاموشی بہت بہتر ہے البتہ موکلات یہ بتا رہے ہیں کہ اگر جامد ہوئی تو پھر صرف ایک کی نہیں دو کی ہو گی جسکے بعد گھمسان کا رَن پڑیگا اور پھر ایک کمپیئن چلے گی کہ کوئی تو اس قوم کو میرے ہم وطنوں کہہ کر پکارے۔ کالم طوالت پکڑتا جا رہا ہے۔
میں نے اپنے ایک کالم میں پہلے بھی مثنوی رومی سے کوے اور ہُدہُد کا قصہ بیان کیا تھا جسکا حاصل بیان یہ تھا کہ ہُد ہُد مانتا ہے کہ میں شکاری کے بچھائے جال کو دیکھ رہا ہوتا ہوں لیکن پیٹ کی بھوک عقل پر غالب آ جاتی ہے۔ اس تناظر میں اشارتاً کسی کیلئے صرف اتنا پیغام ہے کہ بچھے جال کو ذرا غور سے دیکھو۔ جارحانہ حکمت عملی ایک ایسے تصادم کی طرف لے جائے گی جہاں پر صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ وقت ہے کہ قبل از وقت انتخاب کی کال دے دی جائے جس سے جمہوریت ہی نہیں پورا سیاسی نظام بچ جائے گا اور اگر اپ نے اپنے پتے صحیح کھیلے تو عین ممکن ہے جس سیاسی جانشین کے متعلق اپ اپنی منصوبہ بندی کر رہے ہو وہی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ کہتے ہیں ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں۔ بات دنوں کی ہے مہینوں کی نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024