پرائم منسٹر ہائوس سے جوڈیشل اکیڈمی کی طرف جانے والا راستہ کب سے ویران پڑا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف پولیس اور سپیشل برانچ (خفیہ پولیس) کے افسر اور اہلکار تعینات تھے۔ سب کی نظریں جوڈیشل اکیڈمی کی اُس عمارت کی طرف جمی ہوئی تھیں جہاں اب سے کچھ دیر بعد ایک بڑے کیس کی انویسٹی گیشن ہونے والی تھی۔ ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران جو سپریم کورٹ کی طرف سے اس بڑے کیس کی تحقیقات کے لیے نامزد کیے گئے تھے اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ اسی اثناء میں پرائم منسٹر ہائوس سے چھ گاڑیوں پر مشتمل ایک مختصر قافلہ برآمد ہوا اور تیزی سے جوڈیشل اکیڈمی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس قافلے میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی شامل تھے۔ شہباز شریف، اسحاق ڈار، حسین نواز اور حمزہ شہباز بھی اس قافلے کا حصّہ تھے۔ نہ کوئی پروٹوکول تھا، نہ سیکورٹی اہلکاروں اور افسروں کی پرائم منسٹر کے اس قافلے کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دوڑتی گاڑیاں۔ نہ ہوٹر کی مخصوص آوازیں۔ سناٹا یونہی طاری رہا اور سناٹے کی اس کیفیت میں بالآخر پرائم منسٹر کا یہ مختصر قافلہ جوڈیشل کی پُر شکوہ عمارت کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ ایک گاڑی سے پرائم منسٹر میاں محمد نواز شریف نمودار ہوئے اور پھر پچھلی گاڑیوں سے شہباز شریف، اسحاق ڈار، حسین نواز اور حمزہ شہباز شریف آصف کرمانی اترتے نظر آئے۔ یہ سب جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت تک گئے اور اندر جانے کی بجائے میں گیٹ سے ہی واپس لوٹ آئے جبکہ نواز شریف نے یہاں رُک کر اپنے کارکنوں کو دیکھتے ہوئے پہلے ہاتھ ہلایا پھر خراماں خراماں جوڈیشل اکیڈمی کے اندر داخل ہو گئے جہاں ایک بڑے کیس میں، اس بڑی شخصیت کی پیشی تھی۔
تمام نجی چینلز کے تمام کیمرے جو جوڈیشل اکیڈمی کے باہر نصب تھے، ملک کے وزیر اعظم کی طرف فوکس ہو گئے۔ ہر موومنٹ کو دکھایا جا رہا تھا۔ اس وقت کا ہر ہر لمحہ کیمروں کی زد میں تھا۔ پورا ملک دیکھ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والا ہے؟
بڑے اداروں کے بڑے افسران پر مشتمل ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بے شمار تند و تیز سوالات کے ساتھ پرائم منسٹر کی منتظر تھی۔ یہ ملکی تاریخ کا پہلا انمول واقعہ تھا۔ جس میں ایک منتخب وزیراعظم خود کو ایک تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کر رہا تھا تاکہ اُن پر اور اُن کے خاندان کے افراد پر مالی بدعنوانی اور کرپشن کے جو الزامات پاناما اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عائد کیے گئے تھے اُن کی حقیقت تک پہنچا جا سکے۔
جب پاکستان میں پہلی بار پاناما کا شور مچا تو تمام اپوزیشن جماعتیں صرف اس ایک نکتے پر حکومت کے خلاف اکٹھی ہو گئیں کہ پاناما کی تحقیقات ہونی چاہیے اور پرائم منسٹر میاں محمد نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اس معاملے پر تحریک کا آغاز بھی ہوا لیکن عمران خان سب اپوزیشن جماعتوں کو اس معاملے میں پیچھے چھوڑ کر ایک پٹیشن کے ساتھ سپریم کورٹ چلے گئے جہاں مہینوں اس کیس کی سماعت ہوتی رہی۔ جو لارجر بنچ اس اہم کیس کی سماعت کر رہا تھا اُس کے سربراہ خود چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ اگرچہ جماعت اسلامی بھی ایک پٹیشنر کی حیثیت سے اس کیس میں پیش ہوئی لیکن تحریک انصاف کا رول اس کیس میں سب سے نمایاں تھا۔ خوب دلائل دئیے گئے، بحث ہوئی۔ بالآخر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ یہ ’’معاملہ‘‘ ابھی تحقیقات طلب ہے۔ انویسٹی گیشن کے بغیرکسی نتیجے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے اس لارجر بنچ نے پاناما کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران پر مشتمل ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی ۔
اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو ساٹھ دنوں کا ٹارگٹ دیا گیا کہ وہ ان ساٹھ دنوں میں نواز شریف خاندان پر تحقیقات کر ے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے۔ جس کی کارروائی اب شروع ہے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو اب تک حسین نواز، حسن نواز اور نواز شریف سمیت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پیش ہو چکے ہیں۔ مختلف اداروں سے بھی نواز شریف فیملی کے مالی امور کا ریکارڈ مانگا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے الزام لگایا کہ مذکورہ ادارے اُن کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے جبکہ ان اداروں نے جے آئی ٹی کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ پرائم منسٹر کے ترجمان مصدق ملک نے ایک میڈیا ٹاک میں یہاں تک الزام لگایا کہ جے آئی ٹی پرائم منسٹر ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ کر رہی ہے۔ جسے قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
شکایات اور الزامات کا ایک پلندہ ہے جو دونوں جانب سے لگایا جا رہا ہے۔ نواز شریف مطمئن ہیں کہ اُن کے خاندان کے دامن سے پاناما کے سب داغ دھل جائیں گے جبکہ اپوزیشن بھی اپنی جگہ مطمئن ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جب سپریم کورٹ پہنچے گی تو نواز شریف کے پاس نااہلی کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ جے آئی ٹی اور پرائم منسٹر کے الزامات میں کہاں تک صداقت ہے یہ سب باتیں کسی تحقیقات کے بعد ہی ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم پاناما کیس اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قطری شہزادے کے بیان نے بھی اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ قطری شہزادے کا کہنا ہے کہ جو خط سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ہے وہ انہی کا لکھا ہوا ہے۔ جے آئی ٹی ٹیم اُن کے پاس آئی تو وہ اس خط کے تمام مندرجات کو درست ثابت کر دیں گے۔ تحقیقات دلچسپ مرحلے میں ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی کیا رپورٹ سامنے آتی ہے۔ اس رپورٹ سے نواز شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ ہو گا اور اگر فیصلہ اُن کے خلاف آیا تو عمران خان کی بلّے بلّے ہو جائے گی۔ بصورت دیگر عمران کا سیاسی بوریا بستر گول ہو جائے گا۔
یہ قانون اور اعصاب کی جنگ ہے۔ تاہم نواز شریف کے جے آئی ٹی میںپیش ہونے سے ایک تاریخ ضرور رقم ہوئی ہے۔ اس سے پہلے قانون کی پاسداری اور عملداری کی ایسی نظیر نہیں ملتی۔ ایک بڑے کیس میں پرائم منسٹر جیسی بڑی شخصیت کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی ظاہر کرتی ہے کہ قانون سب سے طاقتور ہے۔ اگر سب قانون کے تابع ہو جائیں تو ملک میں بہتری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ چھوٹے بڑے کا امتیاز ختم ہو گا اور کمزور و طاقتور سب قانون کے سامنے برابر ٹھہریں تو نظام کو استحکام ملے گا۔ یہی دنیا کا قانون ہے اور اسلامی فقہ بھی یہی کہتی ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قانون پر عملداری کی ایک اچھی مثال قائم ہو گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024