ہماری ابدی زندگی اور رمضان المبارک
یہ دنیا عارضی اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے اس کی رونقیں اور جاہ و جلال سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ انسان جو نہ جانے اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھتا ہے اسے بہت جلد یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ زندگی عارضی اور ناپید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں سورة الملک میں بڑے واضح انداز سے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے موت کو اور حیات کو۔ اب یہاں پر یہ نقطہ کہ پہلے موت کا ذکر کیا گیا ہے اور بعد میں حیات یعنی زندگی کا یہ کیوں۔ یہ اس لےے کہ اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی اور وہی اصل میں ابدی زندگی ہے یعنی مرنے کے بعد عالم برزخ کی زندگی جس کا شعور ہم بظاہر زندہ لوگوں کو نہیں ہوسکتا اور جب ہم موت کا شکار ہوں گے اور اس عارضی دنیا کو چھوڑیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ابھی ہماری بظاہر کھلی آنکھیں دراصل بند ہیں اور جب یہ آنکھیں بند ہوں گی تو اصل میں ہماری عالم برزخ کی زندگی آشکار ہوگی اور وہاں پر صرف اور صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت یا دوزخ ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوزخ کی آگ سے بچائے۔ یہاں پر تو آگ کی چنگاری اگر ہمارے جسم پر گر جائے تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں آخرت میں ہمارے یہ نرم و نازک عیش و عشرت پر پلے ہوئے اجسام کس طرح سے آگ کو برداشت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریں اور ابدی زندگی میں آسانی کا معاملہ فرمائے (آمین)۔ اس وقت رمضان المبارک کا تیسرا اور آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے۔ حضور اقدسﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ہے اس لےے ہمیں اس تیسرے عشرہ میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا بار بار کرنی چاہےے کہ اے اللہ ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ اے اللہ ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا (آمین) رمضان المبارک دراصل مسلمانوں کی روحانی ٹریننگ کا مہینہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات سے ہے اور یہ عظیم الشان مہینہ امت محمدیہ کےلئے خصوصی تحفہ ہے۔ اس مقدس ماہ کے اندر آپس میں ایثار، محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو صبر اور حوصلہ عطا ہوتا ہے۔ غریبوں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ روزہ کے ذریعے دراصل ایک مسلمان کو ایسا تقویٰ عطا ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے اس کی روحانی و جسمانی ترقی ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان کے اندر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص نورانیت عطا ہوتی ہے جس سے وہ روحانی اور جسمانی طور پر پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے کو چھوڑ دینے کا نام نہیں بلکہ زبان بند، آنکھیں بند، کان بند، روزہ رکھنے کا مطلب ہے کہ زبان سے کسی کو تکلیف نہیں دینی، کسی کی غیبت نہیں کرنی، کسی کو گالی نہیں دینی، یہ باتیں تو ویسے ہی منع ہیں اور جب انسان روزے کے ساتھ ہوگا پھر تو ان باتوں سے انسان کو اپنے آپکو مکمل طور پر دور رکھنا چاہےے۔ یہ ہیں ایک کامل انسان کی صفات اور جب انسان ان پر عمل پیرا ہونا شروع ہو جاتا ہے تو پھر بہت سی آفات سے اپنے کو بچا لیتا ہے۔ یہ دنیا مچھر کا پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس پوری کائنات کی قدر مچھر کے پر سے زیادہ نہیں ہے لیکن افسوس کہ ہم اس دنیا کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب عید کے دن نزدیک آرہے ہیں، بازاروں میں اتنا زیادہ رش لگ چکا ہے کہ انسان پیدل بھی نہیں چل سکتا۔ غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچوں کےلئے ہزاروں کی خریداری کررہا ہے۔ فضول خرچی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں غربت ہے اور پیسے کی فراوانی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بہت پیسہ ہے جس کا اظہار ان دنوں بڑے زوروں پر ہے۔ ہمارے ملک میں مخیر حضرات بھی بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ زکوٰة، صدقات کے ذریعے بہت زیادہ خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ہماری ابدی اور آخروی زندگی کےلئے ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہورہا ہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ ہمیں اس زندگی مین بھی ان کے بدلے میں بہت کچھ عطا کرتا ہے ہم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے فقیر ہیں اور وہ سب سے بڑا غنی اور عطا کرنے والا ہے۔ وہ پاک ذات کسی کا احسان رکھنے والا نہیں ہے۔ اگر ہم اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو وہ پاک ذات فوراً ہمیں گیارہ گنا زیادہ عطا کردیتا ہے لیکن فضول خرچی سے اپنے آپکو ضرور بچانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے اسی ناپیدار دنیا کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ حضرت علیؓ، شیر خدافرمایا کرتے تھے کہ اے دنیا علیؓ نے تجھے تین طلاقیں دی ہوئی ہیں۔ اے دنیا تو علیؓ کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ حضرت علیؓ نے اپنے صاحبزداے حضرت حسنؓ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے میرے بیٹے اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ڈرتے رہنا، اس کے تمام احکامات کی پابندی کرنا، اس کے ذکر سے اپنے قلب کو آباد رکھنا، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، گذرے ہوئے لوگوں کے مکانات اور کھنڈڑوں میں چلنا پھرنا اور دیکھنا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا اورکہاں سے کوچ کیا اور پھر کہاں پر اترے اور کہاں جاکر ٹھہرے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ دوستوں سے منہ موڑ چکے ہیں اور وہ وقت بھی دور نہیں کہ تمہارا شمار بھی انہی گذرے ہوئے لوگوں میں ہوگا۔ لہٰذا اپنی ابدی اصل منزل کا انتظار کرو اور اپنی ابدی زندگی یعنی آخرت کا اس دنیا سے سودا نہ کرو۔ سبحان اللہ حضرت علیؓ کے علم و حکمت سے بھرے یہ خطبات پوری انسانیت کےلئے مشعل راہ ہیں۔ کاش ہم ان پر عمل کرسکیں اور اپنی اس عارضی زندگی کو چھوڑ کر ابدی زندگی کی تیاری شروع کردیں کیونکہ ابھی ہماری زندگی کی سانسیں باقی ہیں۔ لہٰذا مرنے سے پہلے اپنے اچھے اعمال کے ذریعے تیاری کرلیں۔