پیشی
پچھلا کالم اس مصرعہ پر ختم ہُوا تھا ۔
ع پیش آنی ہے وہی جو کچھ کہ پیشانی میں ہے۔
یہ مصرعہ جنابِ شفیق الرحمٰن کی ایک تحریر میں نظر آیا تھا۔ دوسرا مصرعہ ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گزرا جیسے ہی ملے گا عرض کر دیں گے۔اگر ہمارے کسی قاری کو مل جائے تو ضرور ہمیں بتا دے ۔ خیر آمدم بر سرِ مطلب آخر کو پیشی ہو ہی گئی اور اب درجہ بدرجہ باقی اعیانِ سلطنت بھی خیر سے پیش ہونے جا رہے ہیں۔یہ جو بڑے صاحب کی پیشی ہوئی تھی اُس میںاچھی بُری کئی باتیں ہوئیں اور تمام اینکروں، کالم نویسوں، فیس بُکیوں، ٹر ٹر ٹویٹریوں اور گپ شپیوں کی سُنی گئی ۔ گُلشن کا کاروبار خوب چل رہا ہے اور ابھی ایک عرصے تک بھاو¿ اوپر ہی اوپر جائے گا۔گویا ملک ترقی کر رہا ہے۔بھائی لوگوں اور دانشور بیبیوں نے بھانت بھانت کے نُکتے نکالے ہیں اور پبلک میں ہرسطح پر موجود سیاسی گُٹکا خوروں ، ملزمان کی صفائیاں پیش کر کر کے ہلکان ہوئے جاتے پیشہ ورامیدوارترجمانوں، مخالفت میں کچرے کے ڈھیر لگاتے صفائی پسندوں، بال کی کھال اُتارنے والے سیاسی قصائیوں یعنی تجزیہ کاروں، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے پھکّڑ بازوں کی تو جیسے رمضان کے تیسرے عشرے میں ہی عید ہو گئی ! اسے کہتے ہیں پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ۔ایسی ڈائی سیکشن تو پوسٹ مارٹم میں بھی شاید ہی ہوتی ہو۔وہ وہ نکتے نکالے جا رہے ہیں کہ نکتے بھی پناہ مانگ رہے ہوں گے۔ چند نُکتے ملاحظہ ہوں: ۱۔ بڑے صاحب کے جلو میں کئی اعلیٰ نسل کی گاڑیاں تھیں جن میں عزیز رشتے دار ، ترجمان اور حفاظتی اہلکار تھے۔حاضر سروس وزراءبھی تھے اور وڈ بی وزراءبھی ۔ اور کیوں تھے؟۲۔ بڑے صاحب گاڑی سے اتر کر کیمروں کی جانب یوں ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے اُن کے استقبال کے لیے کیمروں کے بجائے متوالوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر ہوں ۔۳۔بڑے صاحب کی گاڑی پر جھنڈے کیوں نہیں تھے؟ ۴۔ پورے تین گھنٹے اندر خانے جو تفتیش ہوئی اُس کا صرف اتنا ہی پتہ چل سکا کہ جو صفائی قبل ازیں پیش کی جا چکی تھی وہی اب بھی پیش کی گئی۔یہ لیک بھی بعد از پیشی پریس سے خطاب میں خود بڑے صاحب نے کی۔ ۵۔ اس پر طُرہ یہ کہ خطاب کسی صاحبِ قلم مُرید نے پیشی سے کم از کم ایک روز پہلے اِن پیج کے غالباً ۳۶ کے فانٹ پر پرنٹ کرا رکھا تھا۔ زورِ خطابت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اِس کی ریہرسلیں بھی محلسرا میں خوب خوب ہوتی رہی ہیں۔۶۔ اس پر بھی ہر کسی نے اُنگلی اُٹھائی کہ محرر نے کہ پیشی کے دوران جو پیش آئی تھی اُس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں تھا اس پیش از وقت تحریر شدہ خطاب میں۔ ویسے ہوتا بھی کیسے جب تقریر تو پہلے ہی تحریر کی جا چکی تھی۔ ان اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئیے کہ تفتیش کے دوران جو کچھ پیش آیا ہو گا اُس کا باہر آ کر کڑی دھوپ میں ذکر کرنا ہوتا تو تفتیش بند کمرے میں اور تنہائی میں کیو ں کی جاتی! ۷۔ تفتیش کے بعد بڑے صاحب نے اپنے خطاب میں کٹھ پُتلیوں کا جو ذکر کیا تو ملک کے تمام دانشور، صحافی، تجزیہ کمار، اینکر شینکر اور ہر ٹائپ کے مسخرے نے اعترافِ عجز ہی کیا کہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ موصوف کن کو کٹھ پُتلی کہہ رہے تھے، اشارہ کس طرف تھا، کسی اور کی طرف تھا یا خود اپنی طرف، آخر ملکِ عزیز میں کٹھ پُتلی کون کون ہے اور نچانے والے کون ہیں، ملک کے اندر ہیں یا باہر اور یا پھر اندر باہر ہر طرف؟ ۸۔ یہ تک بھی نوٹ کیا گیا کہ بڑے میاں صاحب کا گلا خراش زدہ کیوں تھا؟ ۹۔ کیا اُن کو دورانِ تفتیش پانی بھی پوچھا گیا تھا یا نہیں؟ ۱۰۔ پھر کچھ ذکر سن ۱۹۳۶ کا بھی ہوتا رہااور احتساب کے تھوک سے ہوتے رہنے کا بھی تقریر میں اشارہ تھا‘ بل کہ واضح طور پر کہا گیا کہ ملک میں اگر کبھی احتساب ہُوا بھی تو لے دے کے شریفوں کا ہی ہُوا! ۱۱۔ بھٹو نے اُن کی فیکٹری کو قومیایا اور فیملی زیرو لیول تک کر دی گئی!! اس پر پی پی پی پی والوں نے خوب واویلا مچایا کہ شریف برادران کا تو کبھی احتساب ہُوا ہی نہیں‘ ہُوا تو پی پی پی پی والوں ہی کا ہُوا! اور یہ کہ فیکٹری کا معاوضہ دیا گیا تھا۔ ایک اینکر نے تو یہ بھی بتایا کہ جب فیکٹری واپس کی گئی تو اُس کا معاوضہ شریف فیملی نے مبلغ ایک روپیا دیا تھا۔اس وقت ملک میں سب سے بڑالطیفہ یہ چل رہا ہے کہ حکومتی اور الحاقی جماعتیں اور حزبِ اختلاف بھی یہ نہیں چاہتیں کہ کسی کا بھی احتساب ہو۔ اس پر ہماری دعا ہے کہ کاش سب ہی کا احتساب ہو جائے اور کرپشن سے بہت حد تک جان چھوٹ جائے۔انہی دنوں چھوٹے صاحب نے بھی پیشی بھُگتی اور کئی گھنٹوں کے بعد جب کمرہ¿ تفتیش سے برآمد ہوئے تو پریس کے بہانے اُنہوں نے بھی قوم سے خطاب کھُلی دھوپ میں فرمایا۔ یہ جو اتنا بڑا لشکر تیر انداز ترجمانوں کا پال رکھا ہے اُن میں سے کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ شاہی نہ سہی کوئی عام سا شادی بیاہ والا شامیانہ ہی لگا دیتا تو بڑے صاحب کو ننگے سر دھوپ میں خطاب کی زحمت نہ ہوتی! کوئی بتائے بھلا ایسے ہوتے ہیں اپنے سرداروں کے پسینے کی جگہ خون بہانے کے دعویدار؟ خیر چھوٹے صاحب نے تو ایک حد تک اپنا انتظام خود ہی کر لیا ہُوا تھا۔ یعنی دھوپ جذب کرنے والے گہرے رنگ کی فیلٹ ہیٹ نما فلاپی سر پر اوڑھ رکھی تھی۔ مگر اُس فلاپی سے صرف سر، پیشانی، ناک کا بانسہ اور گُدی کا ایک مختصر سا حصہ ہی ڈھک رہا تھا باقی کا پورا جسمِ مبارک تیز دھوپ میں نہا رہا تھا۔ سورج کی تپش کا اثر خطاب کے متن پر بھی پڑ رہا تھا جس سے زورِ کلام ا یسا تیکھا ہُوا جارہا تھا کہ اگر غنیم اُس وقت اُن کے ہتھے چڑھ جاتا تو نیست و نابود کر کے رکھ دیتے۔چوں کہ چھوٹے صاحب شاعری سے شغف کا اظہار ضرور کرتے ہیں تو اُنہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایک پُرزہ کا غذ کا نکالا اور ایک شعر بھی ارشاد فرمادیا۔جہاں تک سوال جواب کا تعلق ہے تو اُنہوں نے پریس والوں کو سوالات کی دعوت ضرور دی مگر صرف ایک سوال کا بمشکل جواب دیتے ہوئے بہ عجلت رخصت ہو گئے۔ اصولاً تو اس خطاب پر بھی کئی دنوں پر محیط بحث مباحثہ بنتا تھا مگر بیچ میں بھارت کی کرکٹ مہا بھارت آن ٹپکی تو پیشیوں پر بھانت بھانت کے تبصرے دب کر رہ گئے ۔بل کہ کسی بھی چینل کو کرکٹ کی طویل اور بھارتیوں کے ساتھ منہ در منہ طعنے بازی سے اٹی لمبی ٹرانس مشنزسے فرصت ہی نہ ملی۔اور پیشیوں پر مزید چیخ پکار کے مواقع میسر نہ آ سکے۔اس موقع پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کھُل کر داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ کھلاڑیوں نے متحد ہو کر بھارتی ٹیم کو چِت کر کے مبلغ ایک سو اسی رنز سے شکستِ فاش دی ۔ کھلاڑیوں اور پوری قوم نے اس فتح پر سجدہ¿ شکر ادا کیا۔میچ دو سو چالیس رنز سے بھی جیتا جا سکتا تھا اگر ہمارا کپتان بھارت کی چھ وکٹیں گرنے پر اپنے فاسٹ باو¿لرز کو ہی موقع دے دیتا تو۔ چاروں فاسٹ باو¿لروں کے کافی اوورز باقی تھے مگر پتا نہیں کیا ہُوا کہ بجائے اپنے پیس اٹیک سے کام لینے کے فخر زمان اور شاداب کو اوورز دے کر پانچ چھ چھکے اور کئی چوکے لگوا کر بھارتی کھلاڑی کے چھہتر رنز بنوا دیے۔بہرحال جیت پر دلی مبارک !