معاشرے کے نظرانداز بچوں کی پناہ۔ ایدھی فاو¿نڈیشن
14سالہ راحیل بڑا ہو کر فوج میں جانا چاہتا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان سپر ہائی وے پر واقع ایدھی مرکز میں راحیل اپنے سب سے بہترین دوست کے ہمراہ 56 دیگر لڑکوں کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کا واحد خاندان یہی لڑکے ہیں۔ راحیل جس ایدھی ہوم رہتا ہے، وہاں رہائشیوں کو ایک آرام دہ بستر کے ساتھ لیونگ کوارٹر فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کیلئے میدان ہے، کارٹون دیکھنے اور خبریں سننے کے لئے ٹی وی ہے، احاطے میں عملے کی جانب سے تین وقت تازہ کھانا تیار ہوتا ہے، نماز پڑھنے کے لئے مسجد ہے، سال میں دو فیلڈ ٹرپ ہوتے ہیں اور ضرورت کے وقت طبی سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ لیکن ان بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جن کو یہ تحفظ میسر نہیں ہے؟ ایدھی مراکز نے پورے پاکستان میں سینکڑوں بچوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں 12 لاکھ بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔پاکستان کو ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کے ہدف کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے اور پاکستانی بچے آج بھی تشدد، زیادتی، استحصال اور غفلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اداروں کی غلط ترجیحات، صحت اورتعلیم کے شعبے میں مختص کم بجٹ، پالیسی سازی میں خلاءاور ملک میں معاشرتی رویوں اور بچوں کے حقوق کے لئے قانون سازی میں پیش رفت میں مسلسل سردمہری اور اصلاحات بدستور سست روی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن پر پاکستان کو دستخط کئے ہوئے 26 سال گزر چکے ہیں۔ دہائیوں کی جدوجہد کے بعد بھی ملک میں بچوں کے حقوق کی حفاظت بدستور انتہائی مشکل ہدف ہے۔ آج پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے اور ملک میں بچوں کی نصف تعداد غذائی قلت کا شکار ہے۔ ہم پولیو کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، ہماری صحت عامہ کی سہولیات مایوس کن ہیں اور بچوں پر تشدد بشمول جنسی زیادتی، چائلڈ لیبر اور قبل از وقت شادیاں افسوس ناک حد تک عام ہیں۔ قومی اسمبلی نے قومی ترقیاتی پروگرام کے طور پر پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) برائے 2030 کا ایجنڈا اختیار کرنے کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔ اس کی پالیسیوں کی افادیت اور ان پر عمل درآمد ابھی دیکھا جانا باقی ہے۔ سپر ہائی وے پر واقع جس ایدھی ویلیج میں راحیل رہتا ہے جہاں منشیات کے عادی افراد کی بحالی سمیت 1400 کے لگ بھگ جسمانی و ذہنی طور پر معذور بچے اور مرد رہائش پذیر ہیں۔ ان میں بچوں کی تعداد 200 ہے جو 100 کے دو گروپس میں تقسیم ہیں جو اندر کشادہ ہالوں میں رہتے ہیں جنہیں ایدھی فاو¿نڈیشن کے عملے کی جانب سے وارڈز کہا جاتا ہے۔ یہاں فرش پر ٹائلز لگے ہیں اور بچے یہیں پر پورا دن گزارتے ہیں اور رات کو سوجاتے ہیں۔ ہر گروپ کی 24 گھنٹے دیکھ بھال کے لئے ایک نگراں مقرر ہے اور ایک ڈاکٹر روزانہ یہاں آتا ہے۔ بچوں کے وارڈ کے نگراں فیصل پچھلے 6 سال سے ایدھی فاونڈیشن مین کام کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ،" کچھ بڑے لڑکے جو ذرا زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور کسی مشکل میں مبتلا نہیں ہوتے وہ میرا کام سر انجام دینے میں مدد کرتے ہیں۔ بچوں کیلئے روزانہ تازہ کھانا تیار ہوتا ہے اور ان میں سے بیشتر بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے کے قابل نہیں ہیں ، وہ ہال کے اطراف میں واقع باغ میں کھیل کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ایدھی صاحب اکثر ان بچوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے تھے اور دوپہر کا کھانا اکثر ان کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ ملک میں معذور بچوں کے لئے ابتدائی طور پر یہ سہولیات حکومت کی جانب سے فراہم کئے جانے والے اقدام کے مقابلے میں کافی بہتر ہیں۔ ایدھی فاونڈیشن پاکستام میں غریب بچوں کو تحفظ دینے کا کام جاری رکھے ہوئی ہے لیکن یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور اس کام میں مزید اضافے کی ضرورت ہے جس کا انحصار پہلے سے بھی زیادہ اور مستقل امداد سے وابستہ ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر اس ماہ رمضان میں کوکا کولا پاکستان نے ایدھی فاﺅنڈیشن کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے بوٹل آف چینج کے نام سے عطیات بڑھانے کی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم لوگوں میں ایدھی فاونڈیشن کیلئے عطیات جمع کرنے اور امداد کے جذبے کو ابھارتی ہے تا کہ ایدھی فاونڈیشن ضرورت مند بچوں کی نگہداشت کی کوششوں کو برقرار رکھ سکے۔ نوجوانوں کیلئے پاکستان کو ایک بہتر اور محفوظ جگہ بنانے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے اور ہم کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ رمضان اور اسکے بعد بھی ایدھی فاو¿نڈیشن سے تعاون کرسکیں۔ ایدھی صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے درج ذیل تجاویز کے ذریعے آپ بھرپور انداز سے ان کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ کوکا۔کولا کی بوٹل آف چینج کو استعمال کرکے پیسے جمع کریں اور اسے قریبی ایدھی مرکز میں جمع کرادیں۔ ایزی پیسہ کے ذریعے ایدھی فاو¿نڈیشن کو عطیات جمع کرائیں۔ ٹیلی نار ایدھی فاو¿نڈیشن کو ملنے والے عطیات کی رقوم پر چارجز کی مد میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرے گا اور عطیات کی پوری رقم ایدھی فاو¿نڈیشن کو موصول ہوگی۔ ایدھی فاو¿نڈیشن کے بینک اکاو¿نٹ میں براہ راست عطیات ڈالیں۔ کوکا۔کولا کا وعدہ ہے کہ اس ماہ رمضان کے دوران 25 ملین روپے تک کے عطیات جمع ہونے پر رقم دوگنا کرکے دی جائے گی۔ ان کا خاندان، بلقیس ایدھی اور ان کے چار بچے ملک میں عبدالستار ایدھی کے مثالی کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اب ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ رمضان اور اسکے بعد بھی ایدھی فاو¿نڈیشن کو عطیات دے کر ایدھی صاحب کے خواب اور ان کے کام کو آگے بڑھانے میں تعاون کریں۔ ایدھی فاو¿نڈیشن بطور ادارہ کروڑوں افراد کی زندگیوں کو بچانے اور انہیں متاثرکن بنانے کا کام جاری رکھے گی۔