اثیر احمد خان اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ وہ داستاں سرائے کے نئے مسافر ہیں۔ یہ سفر اشفاق احمد نے آغاز کیا تھا۔ خاص طور پر شہاب صاحب کے ساتھ دوستوں کی ملاقات داستاں سرائے میں ہوتی تھی۔ روحانی دانشور واصف علی واصف بھی یہاں تشریف لاتے تھے۔ اشفاق صاحب کے بعد بانو قدسیہ ہر جمعے کو تقریب کرتی تھیں۔ جس میں احباب جمع ہوتے تھے۔ تقریب کے علاوہ بھی گپ شپ ہوتی تھی ایسی باتیں کہیں اور کسی جگہ نہ ہوتی تھی۔
ان محفلوں میں کبھی کبھی بابا یحیٰی خاں آ جاتے تھے۔ وہ خود بزرگ ہیں۔ داڑھی بہت سفید ہے مگر وہ بانو آپا کو ماں جی کہا کرتے تھے۔ بانو آپا کی شخصیت کی دلآویزی اور شفقت کے سارے رنگ ماحول نکھر نکھر کر بکھرتے تھے۔
بانو آپا کے بعد اثیر احمد خان نے اس تخلیقی اور تقریبی سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ کیا ہے اور یہ محفلیں پھر شروع ہو گئی ہیں۔ اس کی پہلی تقریب برادرم تنویر ظہور کی خود نوشت کی تقریب کتاب سے ہوئی۔ یہاں افضال احمد بھی موجود تھے جو بہت معروف پبلشر ہیں۔ انہوں نے اشفاق صاحب اور بانو آپا کی کئی کتابیں شائع کی تھیں۔ تنویر ظہور کی کتاب ’’میرا عہد جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ بھی افضال احمد نے شائع کی ہے۔ افضال احمد نے تنویر ظہور کی کتاب پر گفتگو بھی کی۔ تقریب میں ریٹائرڈ جسٹس افضل حیدر نے بھی شرکت کی۔ احتشام ربانی، ڈاکٹر خالد جاوید خاں، شاہدہ دلاور شاہ، طارق بلوچ صحرائی، فوزیہ تبسم اور دوسرے کئی احباب نے شرکت کی۔ طارق بلوچ صحرائی کے افسانوں کی کتاب ’’گونگے کا خواب‘‘ کی تقریب عید کے بعد ہو گی۔ ایک خاص بات اس محفل کی یہ ہے کہ تنویر ظہور نے گھنٹہ بھر اردو زبان میں گفتگو کی۔ وہ ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کرتے ہیں۔ غالباً اردو میں یہ ان کی پہلی گفتگو تھی۔ یہ بھی داستاں سرائے کا ایک کرشمہ ہے۔ تنویر ظہور پنجابی زبان کے عاشقوں میں سے ہیں۔
میں نے پہلے بھی کہیں یہ کہا تھا کہ جمائما عمران خان سے بعض معاملوں میں بہت بڑی ہیں۔ ہمیں خوشی اپنی کرکٹ ٹیم کی شاندار جیت کی بھی ہے مگر خوشی یہ بھی ہے کہ ایک خبر کے مطابق جمائما کا دل بھی بے قرار تھا پھر سرشار ہو گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ یہ مصرعہ بھی یاد رکھتی ہیں…
ہم ہیں پاکستانی ہم جیتیں گے
پھر یہ بات بھی بہت شاندار ہے کہ جمائما نے وہ ساری دستاویزات جو عمران خاں کے مقدمے کے لئے ضروری تھیں وہ تلاش کرکے بھجوا دیں۔ جمائما کا کوئی تعلق اب عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ عمران خان کی مطلقہ ہیں اور یہ تکلیف دہ بات ہے۔ عمران خان کو طلاق نہیں دینا چاہئے تھی۔ جمائما نے عمران کے لئے اپنا وطن چھوڑا اپنا مذہب چھوڑا۔ سب کچھ چھوڑا مگر عمران نے صرف جمائما کو چھوڑا۔
یہ ناقابل فہم بات ہے کہ ایک طرف نواز شریف اور شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے ملزم کی طرح پیش ہوئے۔ دوسری طرف طلال چودھری، دانیال عزیز، نہال ہاشمی وغیرہ وغیرہ جے آئی ٹی کے خلاف بات کرتے ہیں۔ طلال چودھری دانیال عزیز بہت بدنام ہو رہے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح اپنے آقائوں کا دفاع کرتے ہیں جس طرح ایوب خاں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ملازم ان کا دفاع کرتے تھے۔ دفاع تک ٹھیک ہے۔ ایسے حکمرانوں کا دفاع ہی کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین خاص طور پر عمران خان کے خلاف بہت الزامات کی بارش کرتے ہیں۔ اس بارش میں وہ خود بھیگ جاتے ہیں۔
ن لیگ دونوں کے منفی پروپیگنڈے پر قمرالزمان کائرہ نے بہت خوبصورت اور مزیدار بات کی ہے۔ ’’شریف برادران عدالت میں کم لڑتے ہیں۔ عدالت سے باہر زیادہ لڑتے ہیں‘‘
سید نصر شاہ میانوالی کی ایک گمشدہ تخلیقی متاع تھے۔ وہ بہت مطالعے کے آدمی تھے۔ بہت بڑے دانشور اور بہت بڑے مرتبے والے شاعر تھے وہ درویش آدمی تھے۔ ساری عمر کسمپرسی اور بے بسی میں گزار دی مگر کوئی حرفِ شکایت ان کی زباں پر کبھی نہ آیا۔
ڈاکٹر اسد مصطفیٰ نے ’’سید نصر شاہ شخصیت اور فن‘‘ کے نام سے ایک بہت اچھی کتاب لکھی ہے مگر وہ اس سے بڑے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اسد مصطفیٰ سے گزارش ہے کہ وہ ایک بڑی کتاب نصر شاہ کے لئے لکھیں یہ کام وہی کر سکتے ہیں۔ شاہ صاحب دینی علوم پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ مذہبی آدمی نہ تھے۔ مولوی تو قطعاً نہ تھے۔ وہ بہت بڑے علمی ادبی آدمی تھے ان سے بہت کام لیا جا سکتا تھا۔ مگر ہم محروم رہے۔ انہوں نے میانوالی میں کئی لوگوں کو مفت کا شاعر بنا دیا۔ ان کا لکھا ہوا کلام اس قدر عام ہوا کہ وہ لوگ بھی شاعر بن گئے جو شعر پڑھ بھی نہ سکتے تھے۔ دورآباد علاقے میں عمر بسر کرنے والا اگر لاہور میں ہوتا تو یہاں کوئی بھی ان کے مقابلے میں بھی نہ آ سکتا تھا…؎
مجھ کو جو منصب ملا میں نے کبھی مانگا نہ تھا
زندگی جس موڑ پر آئی کبھی سوچا نہ تھا
وہ اپنی سربلندیوں سے واقف تھے مگر لوگ باخبر نہ ہو سکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024