عبوری جی ایس ٹی قبول نہیں‘ ٹیکس ایک فیصد بڑھا اشیا 15 فیصد مہنگی ہو گئیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیٹ نیوز) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق از خود نوٹس سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ یہ آج سنایا جائے گا۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے کہا کہ بادی النظر میں حکمرانوں نے جی ایس ٹی میں اضافے کا فیصلہ خود کیا اس میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ عدالت کے مطابق یہ پیسہ سرکاری خزانے میں جمع ہونے کی بجائے حکمرانوں کی جیبوں میں جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت کو عبوری ٹیکس لگانے کی اجازت دے دی گئی تو پھر لوگوں کا پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھ جائے گا لوگ پارلیمنٹ کی طرف رجوع نہیں کریں گی جس میں اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کے بعد اس کو سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی بنا پر پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافہ کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جی ایس ٹی میں اضافے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافہ کر دیا گیا اور قیمتوں میں اضافے کا بھی حکمرانوں نے نوٹس نہیں لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت حکومت کو ٹیکس لگانے سے نہیں روک سکتی لیکن ا±س کے لئے ضروری ہے کہ حکومت آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار کرے۔ جی ایس ٹی میں اضافے سے متعلق بجٹ میں تجویز دی گئی تھی اور ابھی بجٹ تجاویز پارلیمنٹ سے منظور بھی نہیں ہوئیں اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔آئل اینڈ گیس ریگولیش اتھارٹی کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ چونکہ اس بات کا یقین تھا کہ قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں جی ایس ٹی میں اضافے کو منطور کر لیا جائے گا اس لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے وکیل رانا شمیم کا کہنا تھا کہ پندرہ روز میں اوسطاً سوا ارب روپے ٹیکس کی مد میں اکھٹے ہوتے ہیں جس پر جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر ایف بی آر اپنے معاملات درست کر لے تو ہر سال ٹیکس کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ حکمران خود سے ٹیکس لگائیں گے تو پارلیمنٹ سے کوئی رجوع نہیں کرے گا پارلیمنٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ آئین کے تحت ٹیکس لگانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے حکومت کو آئینی طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے تھا جس طرح عبوری ٹیکس لگایا گیا وہ ناقابل قبول ہے یہ درست ہے کہ حکومت ٹیکس سے چلتی ہے اگر ایف بی آر درست طریقہ سے ٹیکس اکٹھا کرے تو ٹیکس ہی ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے بجٹ میں جی ایس ٹی ایک فیصد لگانے کی تجویز دی گئی مگر اشیا کی قیمتوں میں پندرہ فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ایک بار مہنگائی ہونے کے بعد اس میں کمی کیسے ممکن ہے؟ پٹرول پمپس اور سی این جی پر 26 فیصد ٹیکس ہے مگر 90 فیصد غیر رجسٹرڈ مالکان یہ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں پراسیسنگ ، مرمت ورکروں کی تنخواہوں کے اخراجات عوام سے وصول کئے جاتے ہیں۔ ہم حکومت کو ٹیکس نافذ کرنے سے منع نہیں کر رہے حکومت کو آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا ٹیکس وصولی کے بغیر حکومتیں نہیں چلتیں تاہم جس طرح عبوری سیلز ٹیکس لگایا گیا وہ ناقابل قبول ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری طریقے کی اجازت دی تو پارلیمنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا حکومت نے ایک فیصد جی ایس ٹی بڑھایا لیکن قیمتیں 15 فیصد بڑھ گئیں۔ عبوری اضافے کا کیا جواز ہے؟ اوگرا کے وکیل راجہ سلمان نے عدالت کو بتایا کہ سب جانتے ہیں کہ یکم جولائی سے ریٹ بڑھ رہے ہیں اس لئے ذخیرہ اندوزی سے بچنے کے لئے یہ اقدام کیا آرٹیکل 63 اے کے تحت کوئی بھی حکومتی رکن اسمبلی بجٹ تجاویز سے اختلاف نہیں کر سکتا چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سی این جی پر پچیس فیصد ٹیکس کیوں لیا جا رہا ہے ایک فیصد اضافے سے یہ شرح چھبیس فیصد ہو جائے گی جس پر سلمان راجہ نے بتایا کہ ایف بی آر نے یہ ٹیکس لگایا ہے اس میں اوگرا کا کوئی عمل دخل نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح قیمتیں بڑھتی رہی تو پچاس کی سی این جی پر پچاس روپے ٹیکس ہو جائے گا لگتا ہے سی این جی والے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بجلی کے بل اور مشینوں کی مرمت کا بل صارفین سے وصول کرتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرٹیکل نو کے تحت کسی کا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ سیلز ٹیکس سولہ فیصد سے زیادہ وصول نہیں کیا جا سکے گا۔ حکومت پٹرولیم اور گیس پر زیادہ سے زیادہ سولہ فیصد ٹیکس وصول کر سکتی ہے، سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ اس بات کا یقین تھا کہ ایک فیصد جی ایس ٹی اضافے کی تجویز منظور ہو جائے گی اسی یقین کے تناظر میں قیمتیں فوراً بڑھا دی جاتی ہیں ایف بی آر کے وکیل رانا شمیم نے موقف اختیار کیا کہ اوسطاً پندرہ دن میں سوا ارب روپے جی ایس ٹی کی وصولی ہوتی ہے ہمیں یقین تھا کہ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ منظور ہو جائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر اپنے معاملات درست کر لے تو ٹیکس ہی ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پٹرول اور سی این جی پر نو فیصد اضافی ٹیکس کیوں وصول کررہی ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ س یاین جی سٹیشن پندرہ فیصد سیلز ٹیکس گیس کمپنیوں کو ادا کر رہے ہیں انہوں نے استدعا کی کہ اگر عدالت جی ایس ٹی کے نفاذ کو کالعدم قرار دینا چاہتی ہے تو ایسا فیصلہ نہ دے جس سے اب تک وصول کیا گیا ٹیکس واپس کرنا پڑے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 1963ء میں 1931ء کے ایکٹ کو 1962ء کے آئین کے تحت جائز قرار دیا انہوں نے کہا کہ اگر عدالت 1931ء کے ایکٹ کو کالعدم قرار دیتی ہے تو اس کا اطلاق مستقبل سے ہو۔ اقبال ظفر جھگڑا کے وکیل اکرام چودھری نے کہا کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے آخری حد تک جائے۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر اپنا قبلہ درست کر لے تو ٹیکس دینے والوں کی کوئی کمی نہیں، ریاست 16 فیصد سے زیادہ جی ایس ٹی وصول نہیں کر سکتی ایف بی آر کو ٹیکس کی شرح میں خود سے اضافہ کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ ایف بی آر کو ٹیکس لگانے کا کوئی اختیار نہیں، آئین کے تحت صرف پارلیمنٹ ہی ٹیکس لاگو کر سکتی ہے۔ سی این جی سٹیشنوں پر 9 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جا رہا ہے عدالت آرٹیکل 9 کے تحت کسی فرد کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔