کچھ تاریخی باتیں روضہ رسول و حرمین شریفین کے حوالے سے
محی الدین بن احمد رضا .....
روضہ¿ رسول اور مسجدِ نبوی کے ساتھ حضرت عائشہؓ کے نام سے منسوب حجرہ وہ جگہ ہے جہاں آپ نے دنیا سے پردہ فرمایا تھا۔ حضرت عائشہؓ کو آنحضرت کی زندگی میں ہی خواب آیا تھا کہ ان کے آنگن میں پہلے ایک روشن چاند اُترا پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتے تھے چنانچہ عائشہؓ جب رسول اللہ کا وصال ہوا اور وہ حجرہ عائشہؓ میں مدفون ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بیٹی سے اُن کے خواب کی تعبیر بیان کر دی کہ آپؓ کو خواب میں نظر آنے والا پہلا چاند آنحضرت کا حجرے میں مدفون ہونا ہے۔ مزید دو چاند جو آپ کو نظر آئے وہ بھی دو افراد کی قبریں ہی ہونگی جو آپؓ کے حجرے میں جناب رسول اللہ کے ساتھ مدفون ہونگے۔ یہ دو قبریں بعد ازاں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی تھیں۔ تاریخ مدینہ منورہ اور مسجدِ نبوی کے حوالے سے عربی کتب میںسے بعض قدیم کتب آج بھی جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی لائبریری میں موجود ہیں۔ بعض عرب م¶لفین نے ان میں روضہ¿ رسول کا اندرونی احوال اور حجرہ عائشہؓ کا جغرافیہ بھی بیان کیا ہے۔ ان قدیم عربی کتب کے مطابق حجرہ عائشہؓ تقریباً 10X12 کے سائز کا ہوگا۔ (واللہ اعلم بالصواب) حجرے میں مدفون جناب رسول اللہ، جناب ابوبکر صدیقؓ اور جناب عمر فاروقؓ کی قبروں کے اردگرد پہلے ایک چار دیواری (رباعی حائط) ہے۔ اس چار دیواروی کے بعد پھر دوسری پانچ اطراف والی دیوار (خماسی حائط) ہے۔ زیادہ گمان یہی ہے کہ ان دونوں احاطوں کو عاشق رسول نورالدین زنگی نے خود تعمیر کروایا تھا۔ شاید بعد ازاں انہیں ترکوں نے بھی برقرار رکھا اور اس کے خارجی طرف کی چاردیواری اور جالی بھی عہد قدیم والی ہی ہے۔ البتہ سعودی حکومت نے ان دونوں احاطوں کے بعد ایک غلاف روضہ¿ رسول اور دونوں صحابہ کرامؓ کی قبروں کے اردگرد لگا دیا تھا جب بھی کسی مسلمان ملک کا سربراہ حجرہ روضہ¿ رسول کے اندر داخل ہوتا ہے تو اسے حجرہ حضرت فاطمہؓ کے ساتھ واقع چبوترہ اصحاب صفہ کے سامنے سے دیوار میں بنے ہوئے دروازے سے اندر لے جایا جاتا ہے لہٰذا جو بھی سربراہ مملکت اندر جا کر حاضری دیتا ہے وہ عملاً اس غلاف کے سامنے حاضری دیتا ہے۔حجرہ حضرت فاطمہؓ کے ساتھ والا دروازہ بند رہتا ہے اور اس کے سامنے مسجد انتظامیہ نے قرآن پاک کی الماریاں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ زائرین اس جگہ سے قرآن پاک حاصل کر کے چبوترہ اصحابؓ صفہ پر بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں۔ عثمانی ترک خلفاءکے دور میں مسجد بیت الحرام اور مسجد نبوی کو جس طرح توسیع دی گئی یہ آج ایک انتہائی دیدہ زیب نقش نگار والے ستونوں پر کھڑی پُرشکوہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ حرم مدینہ منورہ کو ترکوں نے نبوی عہد اور عثمانی عہد کے لحاظ سے تاریخ میں محفوظ کیا ہے۔ مسجدِ نبوی میں ستونوں پر درج یہ منقش تحریریں آج بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ توسیع کے وقت کی یہ خطاطی مسجدِ نبوی کی دیواروں پر ترک خطاطوں کے فن کا شاہکار نمونہ ہیں۔ ان ترک خوش قسمت خطاطوں کے نام دیوار مسجدِ نبوی پر آج بھی موجود ہیں۔ ان خطاطوں نے اپنی محنت کا عثمانی ترک خلافت سے معاوضہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ماضی بعید میں کچھ افریقی مسلمان قبائل نے اپنے نومولود بیٹوں کی پیدائش کے بعد خدمت حرم مکی و مدنی کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ایسے افراد کو قدیم عہد میں ”آغا“ کہا جاتا تھا جس کی جمع آغاوات ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ نئے آغاوات کی قبولیت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ بیت اللہ کے اردگرد یعنی مسجد الحرام میں اور اسی طرح مسجدِ نبوی میں ہر عہد میں ”مجاورین“ موجود رہے ہیں۔ برصغیر میں ان مجاورین کو ”فقرائ“ کہا جاتا ہے۔ ان افراد کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ یہ رضا کارانہ طور پر یہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ذکر الٰہی اور درود و سلام پیش کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ خوشی سے ان کو اپنے گھروں کی خوشیوں میں مدعو کرتے ہیں۔ زائرین حسبِ توفیق ان کو نذرانہ پیش کرتے رہتے ہیں جنہیں یہ قبول کر لیتے ہیں۔ یہ مجاورین افریقہ سینٹرل ایشیائ، برصغیر، مشرق وسطیٰ غرض کہ ہر مسلم آبادی والے حصے سے آئے ہوئے ہیں جب سعودی حکومت نے مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی میں رات کو قیام ممنوع قرار دیدیا تو انہیں بھی بے دخل ہو جانا پڑا ۔ بعد میں شاہ عبداللہ نے اس حکم نامے کو منسوخ کر کے زائرین کو رات کے وقت مسجدِ الحرام اور مسجدِ نبوی میں آنے کی اجازت دے دی تو اس کے بعد سے مجاورین اور فقراءمکی و مدنی حرم شریف میں ہی رہتے ہیں۔ حرمین شریفین میں صندل یعنی عود کی لکڑی کو جلا کر اس سے فضا کو معطر رکھا جاتا ہے۔ اس عمل کا آغاز مسجد الحرام میں پچاس سال تک امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے والے قاری امام الشیخ عبداللہ الخلیفی نے شروع کیا تھا۔ ان ہی امام صاحب نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں نماز تہجد با جماعت کا آغاز کیا تھا۔ جس رات پہلی نماز تہجد مسجد الحرام میں 21ویں رمضان کو ادا ہوئی اس میں تہجد گزاروں کی تعداد صرف 30 تھی۔ مقام ابراہیم کے پیچھے کنکریوں کے اوپر یہ نماز تہجد جس کو ”صلوٰة القیام“ کہا جاتا تھا، پڑھی جاتی تھی کیونکہ مسجد الحرام کے صحن میں اس وقت تک فرش نہیں لگا تھا۔ اس طرح 1950ءتک صفاءاور مروہ کے مابین حجاج اور عمرہ کرنے والے کنکریوں کے اوپر سعی کرتے اور عموماً ان کے پا¶ں زخمی ہو جاتے تھے۔ حجاج عموماً ناریل کی چھال کو پا¶ں کے نیچے ڈوری سے باندھتے تھے تاکہ ان کے پا¶ں زخمی نہ ہو سکیں۔ آجکل مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے بطور خاص شام کے بعد حجاج اور زائرین کو مکہ ٹاور کی بلند ترین عمارت کی روشنیاں اور ان میں نصب گھڑیاں نظر آ جاتی ہیں۔ تاریخی طور پر مشہور ہے موجودہ باب ملک عبدالعزیز کے ساتھ مکہ ٹاور والی جگہ پر ترک قلعہ تھا جو بیت اللہ کی حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا اس قلعہ سے چار فوجیوں کے لئے ایک سرنگ جدہ روڈ کی طرف سطح زمین پر ظاہر ہوتی تھی جہاں ترکوں نے دو دروازوں کی تعمیر کروائی تھی۔ اگرچہ اب یہ دروازے ختم ہو چکے ہیں مگر اس جگہ کو آج بھی اہل مکہ ”البیبان“ کہتے ہیں۔ ترک قلعہ قدیم کی جگہ مکہ ٹاور بنانے کا خیال شاہ فہد بن عبدالعزیز کو آیا چنانچہ انہوں نے اس جگہ کو اپنے عظیم والد شاہ عبدالعزیز کے نام پر ادارہ بنا کر وقف برائے حرم شریف کر دیا یہ منصوبہ اُن کے بیٹے عبدالعزیز کے ذریعے مکمل کروایا گیا اور موجودہ نائب وزیر حج و اوقاف قاری ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس امام و خطیب مسجد الحرام نے اس میں معاونت کی۔ اس کی آمدنی صرف حرم بیت اللہ کے لئے وقف ہے۔ موجودہ دور میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی زیر نگرانی توسیع مسجد الحرام اور توسیع مسجد نبوی کا مرحلہ جاری ہے۔ شاہ عبداللہ جو شاہ فیصل کی طرح فضول خرچی کے اگرچہ سخت مخالف ہیں مگر حرمین شریفین کی توسیعات پر وافر دولت خرچ کر رہے ہیں۔