بے نظیر قیادت اور بے مثال جدوجہد
ضیاءکھوکھر
جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کی تاریخ جب مرتب کی جائے گی تو ساری دنیا میں جمہوریت کی سربلندی کیلئے قربانیاں دینے والی نمایاں ترین شخصیات میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نام شامل ہو گا۔21 جون 1953ءکو پیدا ہونے والی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہیدکی اس عظیم بیٹی نے کم عمری میں ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہ لوگوں نے مستقبل میں ایک عظیم رہنما کے آثار بینظیر بھٹو کی شخصیت میں دیکھنا شروع کر دئیے تھے۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت پر شبِ خون کے بعد انہیں سخت ترین مصائب، قید و بند اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئیں۔
چشم فلک نے 10 اپریل1986 ءکا وہ شاندار اور تاریخی دن بھی دیکھا جب دخترِ مشرق نے وطن واپس آ کر جمہوریت اور عوامی جدوجہد کی قیادت سنبھال لی۔ ملک کے عوام نے اس موقع پر ان سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ ان کی وطن واپسی پر لاکھوں کی تعداد میں عوام لاہور ان کے استقبال کیلئے اُمڈ آئے جو اس بات کا واضح اعلان تھا کہ انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے بے نظیر بھٹو کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ دن بھی انتہائی مبارک تھا جب راستے کی ساری رکاوٹوں کے باوجود 1988ءکے عام انتخابات میں انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی اور محترمہ بینظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال کر کم عمر ترین سربراہ حکومت اور جدید تاریخ میں کسی مسلمان ملک کی پہلی سربراہ حکومت بننے کا عزاز حاصل کیا۔ بلاشبہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے دخترِ مشرق کی اس جدوجہد کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے۔ اپریل 1986 میںجلاوطنی ختم کرنے کے بعد وطن واپس آ کر انہوں نے خدا کی بستی کے غریب عوام تک پاکستان پیپلز پارٹی کا پیغام پہنچایا اور ملک کے طول و عرض میں عوامی اجتماعات کے ذریعے لوگوں کو جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے ۔ 1986 میں ان کے پاکستان واپس آنے کے فیصلے میں عوام سے شدید محبت کارفرما تھی اور وہ جانتی تھیں کہ جمہوریت کی بحالی کے بغیر عوام کے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس بات پر بھی رنجیدہ اور پریشان رہتی تھیں کہ غیرجمہوری طرز حکمرانی میں پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا تھا اورصوبوں کے حقوق غصب کرکے وفاق پاکستان کو بھی کمزور کیا جا رہا تھا۔
تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور غیرجمہوری قوتوں نے جمہوریت اور پاکستان کے عوام کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر جلاوطنی میں جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب جمہوریت کش قوتوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا، محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بار پھر وطن واپسی کا اعلان کر دیا اور تمام خطرات کے باوجود غیر معمولی جرا¿ت، دلیری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غاصب قوتوں کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اکتوبر 2007 ءمیں وطن واپس آ کر بحالی جمہوریت کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی۔ شہادت سے قبل اپنے تاریخی خطابات میں شہید بی بی نے پاکستان کے ایسے جمہوری مستقبل سے متعلق اپنا واضح موقف پیش کیا جہاں فرسودہ خیالات کی حامل قوتوں اور عوام دشمن ایجنڈا کیلئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیاقت باغ میں ان کا آخری خطاب ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور اسے فلاحی مملکت بنانے کے ساتھ وابستگی کا اظہار تھا جہاں پر ہر شہری کو مساوی سماجی و معاشی حقوق میسر ہوں۔
انہوں نے ہمیشہ خواتین، اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقات کو متاثر کرنے والے معاملات پر اپنی خصوصی توجہ مبذول رکھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو انسانی حقوق کی بحالی میں ہمیشہ خصوصی دلچسپی رہی اور انہوں نے عوام بالخصوص ملک کے محروم طبقات کو بنیادی حقوق دینے کیلئے زبردست کاوشیں کیں۔
پارٹی کے ہر اہم اجلاس میں وہ پارٹی رہنماﺅں کو اپنے متعلقہ شعبوں میں ایسی پالیسیاں وضع کرنے پر زور دیتیں جن کے ذریعے ملک کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ ملک میں خواتین کی حالت زار پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید اکثر بے چینی اور دکھ کا اظہار کرتیں۔ اس ضمن میں عملی اقدامات کے طور پر انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں خواتین کیلئے الگ بنک، الگ پولیس سٹیشن اور بے آسرا خواتین کیلئے کرائسز سینٹروں کے قیام سمیت ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی بااختیاری کیلئے لاتعداد اقدامات کئے۔ انہوں نے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکال کر بین الاقوامی تعلقات اور تعاون کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید ملک کی معاشی تعمیر و ترقی کیلئے انرجی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھیں اور تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ملک کو انرجی کے شعبہ میں خود کفیل بنانے کیلئے جو اقدامات کئے ان کے دور رس اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے اور ملک میں صنعتی ترقی کی نئی بنیادیں رکھیں۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر پوری پاکستانی قوم ان جیسی بے مثال، نڈر، بہادر، دلیر اور بینظیر قائد کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہید بی بی کے سنہری افکار ملک کی تعمیر و ترقی، جمہوریت کے استحکام اور ملک کے عوام کی خدمت کے حوالے سے پاکستانی قوم کے لئے رہنما اصولوں کے طور پر تاابد موجود رہیں گے۔