دہشت گردی اور ڈرون حملوں کیخلاف جامع حکمت عملی پر حکومت‘ اپوزیشن اور عسکری قیادت کا اتفاق....یہ حکمت عملی کیا ہے؟ واضح کیا جائے
دہشت گردی اور ڈرون حملوں کیخلاف جامع حکمت عملی پر حکومت‘ اپوزیشن اور عسکری قیادت کا اتفاق....یہ حکمت عملی کیا ہے؟ واضح کیا جائے
وفاقی حکومت اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کیخلاف پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ اس سے نمٹنے کافیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت مجموعی ملکی سلامتی کی صورتحال‘ بلوچستان کے حالیہ واقعات اور ڈرون حملوں سمیت قومی سلامتی کے امور پر غور کیلئے گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں اہم اجلاس ہوا جس میں تمام صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے کر اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف‘ وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز‘ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شریک ہوئے‘ جس میں وزیر داخلہ نے اپنے حالیہ دورہ¿ بلوچستان کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی اور بلوچستان میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے مابین رابطوں کے فقدان کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے یقین دلایا کہ اس حوالے سے مکمل تحقیقات کی جائیگی۔ اجلاس میں قومی سلامتی اور دہشت گردی سے متعلق معاملات پر وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں آرمی چیف جنرل کیانی کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے اس امر پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے تمام ادارے مل کر کام کریں اور مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جائے۔ انہوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی مینجمنٹ اور سکیورٹی ڈھانچے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام بیرونی جارحیت کیخلاف موثر ہتھیار ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت کو بلاشبہ دو ہی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے عہدہ برا¿ ہونا وہ اولین ترجیحات میں شامل کر چکے ہیں۔ ان میں دہشت گردی اور توانائی کا بحران شامل ہے جبکہ ان دونوں مسائل سے براہ راست ملک کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ توانائی کے بحران سے تو میاں نواز شریف کی حکومت کو سیاسی نقصان بھی ہو سکتا ہے اس لئے وہ اس بحران سے نجات کو اپنی اولیت ترجیح بنا کر ہائیڈل اور تھرمل بجلی سمیت توانائی کے تمام ذرائع کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جبکہ دہشت گردی کا ناسور ہمارے ہزاروں بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کا خونِ ناحق بہانے کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ چونکہ یہ دونوں گھمبیر مسائل موجودہ حکومت کو سابق حکمرانوں سے ورثے میں ملے ہیں اس لئے حکومت کو ان بحرانوں سے نکلنے کیلئے سابق حکمرانوں کی ڈگر سے ہٹنا ہو گا۔ اگر دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے سابق حکمرانوں والی پالیسی ہی برقرار رکھی گئی جیسا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مشرف حکومت کی پالیسیاں برقرار رکھی تھیں‘ تو دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے کے بجائے پھیلتا جائیگا اس لئے اب بہرصورت حکومت کو ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر جرا¿ت مندانہ پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔
اس وقت ملک جس بری طرح دہشت گردی کے عفریت کے جبڑوں میں پھنس کر اپنی بقاءکیلئے فکرمند ہے‘ اسے اس عفریت سے نجات دلا کر ہی زندگی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ دہشت گردوں نے حکومتی‘ ریاستی اتھارٹی کو مسلسل چیلنج کرتے اور بالخصوص کوئٹہ‘ کراچی اور خیبر پی کے میں اپنی دہشت و وحشت کی دھاک بٹھاتے ہوئے ملک پر اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ اگر اس کا فوری سدباب نہ کیا گیا اور دہشت گردوں کو ہمارے سکیورٹی لیپس سے فائدہ اٹھا کر اپنے اہداف کی تکمیل کا موقع ملتا رہا تو یقیناً وہ اپنے ایجنڈے کیمطابق سب کچھ کر گزریں گے۔ گزشتہ دو ہفتے کے دوران دہشت گردوں کی پھیلائی بربریت سے جہاں بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں‘ وہیں شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید اجاگر ہوا ہے۔ نتیجتاً اندرونی بیرونی سرمایہ کاری بھی غیریقینی کی فضا کا شکار ہے اور لوگوں کا کاروبار حیات و روزگار ٹھپ ہونے سے بھی انہیں جان کے لالے پڑے ہیں۔ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی اور بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں گھناﺅنی دہشت گردی کی وارداتوں‘ مردان میں نماز جنازہ کے دوران خودکش دھماکے اور کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے بعد گزشتہ روز پشاور میں فورسز کے قافلے پر فائرنگ اور راکٹ حملے سے بادی النظر میں دہشت گرد ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ انکے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں‘ یقیناً ہماری سکیورٹی ایجنسیز کو اس کا بخوبی علم ہے‘ اسکے باوجود دہشت گردوں کو اپنے اہداف کی تکمیل کا موقع مل رہا ہے تو سکیورٹی کے معاملات میں کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ موجود ہے‘ اس تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ کو تشویش کا اظہار کرنے یا کسی پر ملبہ ڈالنے کے بجائے ہر قسم کے سکیورٹی لیپس کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے کیونکہ تمام سکیورٹی ادارے انہی کے ماتحت ہیں۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں انہوں نے اپنی رپورٹ میں یقیناً مسائل کے حل بھی تجویز کئے ہونگے اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ آرمی چیف کو وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں بھی اعتماد میں لیا گیا ہے اور انہیں آل پارٹیز کانفرنس میں بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے اداروں کے مابین مخصوص مفادات کے حامل عناصر کی جانب سے بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششیں خود ہی ناکام ہو جائیں گی۔ دہشت گردی کا پھیلتا ہوا ناسور چونکہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے اس لئے اسکے تدارک کی تدبیریں بھی ہم نے خود ڈھونڈنی اور اسکی بنیاد پر عملی اقدامات اٹھانے ہیں۔ گڑبڑ اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب آئے روز کے ڈرون حملوں کے ردعمل میں دہشت گردوں کو خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری نئی وارداتوں کیلئے حکومت سے نالاں لوگ اپنے مذموم مقاصد کیلئے بھرتی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ڈرون حملوں کی امریکی پالیسی کیخلاف حکومت‘ اپوزیشن اور عسکری قیادتیں سوچ کی یکسانیت کیساتھ باہم متفق ہیں۔ کس حکمت عملی پر متفق ہیں‘ یہ بھی اعلان کیا جانا چاہیے۔وزیراعظم میاں نوازشریف پہلے ہی امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ڈرون حملوں کیخلاف حکومتی اور عوامی جذبات سے آگاہ کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران یقین دلایا ہے کہ ڈرون حملوں پر امریکہ کو حکومت کی جانب سے سخت ترین پیغام دے دیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن بینچوں پر موجود تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اس امر پر زور دیا ہے کہ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور وزراءاعلیٰ سمیت سب مل کر دہشت گردی کیخلاف پالیسی بنائیں اور امریکہ کو بتا دیں کہ ہم سب ملک کی سلامتی کیلئے متحد ہیں۔ انہوں نے ڈرون حملے بند کرانے کے ساتھ ساتھ امریکی جنگ سے الگ ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہی وہ ایشو ہے جس پر پارلیمنٹ میں مفصل غور کرکے قومی اتفاق رائے سے اور قومی مفادات کے تقاضوں کے عین مطابق ایک جامع نئی خارجہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی سلامتی کے ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کرلی ہے اس لئے توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمہ اور کسی بھی بیرونی جارحیت کیخلاف ملک کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانے کی ٹھوس پالیسی مرتب کرنے اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائیگی۔ یقیناً ملکی سلامتی اور پاکستانیوں کے جان و مال کی حفاظت سے زیادہ تو ہمیں اور کچھ عزیز نہیں ہو سکتا اور ملک میں امن کی واپسی کو ہر صورت یقینی بنانا حکومت اور اسکے ماتحت عسکری قیادتوں کا اصل امتحان ہو گا۔