یہ وطن ہمارا ہے!
روز اول سے پاکستان اغیار کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا انگریز کو ہرگز یہ پسند نہ تھا کہ ایک ایسی آزاد اسلامی مملکت معرض وجود میں آجائے جو آبادی مادی وسائل کی فراوانی اور کئی دیگر اعتبارات سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہو انہیں یہ اندیشہ تھا اور یہ اندیشہ بے جا بھی نہ تھا کہ یہ نوخیز ریاست سارے عالم اسلام میں بیداری اور خودشناسی کی لہر دوڑا دے گی جو آخرکار انکے استعماری مفادات کیلئے ضرب کاری ثابت ہو گی وہ پاکستان کے نام سے ہی الرجک تھے پاکستان کے مطالبہ سے ان پر وحشت سی طاری ہو جاتی تھی اور ہندو بھی پاکستان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے اور انہوں نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ وہ پاکستان بنانے کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے اسی طرح متعدد مغربی ممالک نے بھی پاکستان کی تجویز کو ایک مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی اور ایک نئے ملک کا قیام انکی فہم و فراست سے بالاتھا کیونکہ اس نئی اسلامی مملکت بننے سے ان کے سیاسی و معاشی مفادات پر زد پڑنے کا اندیشہ تھا انکے افکار و نظریات اسلامی نظریہ سے متصادم تھے وہ اپنے پہلو میں ایک ایسی قوت کو ابھرتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے جو کل ان کیلئے خطرہ کا باعث ہو سکتی تھی لیکن جرأت و استعجاب اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان بننے سے قبل در‘ در کی ٹھوکریں کھایا کرتے تھے غربت و افلاس کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے وقار اور آبرونامہ کی کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے ان پر بضد تھے معاشی اور صنعتی شعبہ میں پسماندگی کے ساتھ ساتھ جہالت ان کا مقدر تھا ایسے تعلیمی ادارے جہاں پیشہ وارانہ تعلیم ڈاکٹری انجینئرنگ وغیرہ کی دی جاتی تھی ان میں کسی مسلمان کا داخلہ بڑے نصیب کی بات تھی ‘منڈیوں اور بازاروں میں کسی مسلمان کا کاروبارانہیں گوارہ نہیں تھا‘ سود در سود قرضوں کی زنجیروں انہیں یوں جکڑ دیا گیا تھا کہ انکی زرعی اراضی اور مکانات ہندو ساہوکاروں کے پاس گروی تھے اور جو لوگ پاکستان کے طفیل اعلیٰ ترین مناسب پر فائز ہوئے کارخانوں اور ملوں کے مالک بنے‘ شاندار بنگلے اور کوٹھیاںرہنے کیلئے اور لمبی لمبی کاریں سواری کیلئے میسر آئیں اور ان لوگوں میں ایسے احسان فراموشوں کی کمی نہیں جو ملت مسلمہ کے اس عظیم حصار کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں جو اپنی بھپری ہوئی انا کی تسکین کیلئے صرف اپنے چند روزہ اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں عوام نے اپنے سیاستدانوں کے کردار کا مشاہدہ کیا ہے کہ انکی غالب اکثریت خودغرضی ہے جن کو ابھی تک اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ جن عوام نے انہیں یہ عزت دی ہے وہ ان کی فلاح و بہبود کی جانب توجہ دیں‘ انہیں ابھی تک یقین ہے کہ وہ عوام انکے گرویدہ ہیں جبکہ عوام کو پہلے سے کئی گنا زیادہ شعور مل گیا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل کے انتخابات میں عوام انکے جھانسے میں نہیں آئینگے لیکن پھر بھی تاجروں ‘ مل مالکان امیدوار کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ پی ٹی آئی حکومت سے بلاشبہ عوام کو ہوشربا گرانی کا شکوہ ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں دو بڑی پارٹی کے قائدین کا محاسبہ کروں گا انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا ہے کہ ایک قائد ملک سے باہر پریشانی کی زندگی بسر کر رہا ہے دوسرا کبھی حوالات میں اور کبھی ضمانت پر آنکھ مچولی سے دوچار ہے اور یہ پہلا وزیراعظم ہے جنہوں نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں اپنے اڈے دینے سے انکار کر دیا ہے جس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک سچا اور محب وطن حکمران ہے۔ کاش کہ اسے اپنے جیسی ٹیم میسر ہوتی تو موجودہ حالات کی بہ نسبت حالات بہتر ہوتے پھر بھی وزیراعظم عمران خان وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کیلئے پرعزم ہیں بلاشبہ مہنگائی ہے جو صرف پاکستان میں ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی ہے ۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہیں جب پاکستان مزید مستحکم ہو گا اور یہاں کے عوام خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے اور بقول وزیراعظم محمد عمران خان وہ غریب ممالک کی مدد کیا کریں گے۔ عوام کو اپنے سیاستدانوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے جو خودغرض ہیں جنہوں نے جائیدادیں بنا رکھی ہیں وہ کبھی عوام کے بہی خواہ نہیں ہو سکتے عوام کو چاہئے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسے امیدواروں کی ایسی اصلاح کریں کہ وہ آئندہ انفرادی مفاد کی بجائے اجتماعی و ملکی مفادات کو ترجیح دیں جب ہمارے سیاستدانوں نے ملکی مفادات کی جانب توجہ دینے کا تہیہ کر لیا تو انشاء اللہ پاکستان ایک عظیم ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔