ملتان کا مان ۔۔۔ کیپٹن منیر ارشد شہید
وطنِ عزیز کی بقاء اور سلامتی کے لئے سجیلے نوجوانوں نے اپنی جوانیاں، قربان کر کے وہ تاریخ رقم کی جسے پڑھ کر ہر پاکستانی کا خون جذبہِ ایمانی سے جوش مارنے لگتا ہے اور اس ارضِ مقدس پاکستان کی حُرمت پر اپنا تن من دھن وار دینے کے لئے بے قرار ہوجاتا ہے۔انہی سرفروشانِ وطن میں ایک روشن ہستی کیپٹن منیر ارشد کی ہے۔ سرزمینِ اولیا ملتان کے اس سپوت نے 11 نومبر1937ء کوعلائوالدین ارشد کے آنگن میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد اُس وقت کیمبل پور میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے جو بعد میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ کیپٹن مُنیرارشدنے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول گجرات سے حاصل کی۔ آٹھویں جماعت کے لئے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حسن ابدال سے مکمل کی۔
پاکستان سے محبت آپ کو پاکستان بحریہ میں لے آئی۔ یکم جولائی 1961ء کو آپ نے پاکستان نیوی میں کمیشن حاصل کیا۔ دورانِ سروس آپ نے مختلف تکنیکی و انتظامی کورسز نمایاں حیثیت سے پاس کئے اور ترقی حاصل کرتے کرتے یکم دسمبر1982ء میں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے۔
آپ نے پانی اور خشکی پر بہت سی پوزیشنز پر کام کیا۔ سمندری حدود کی حفاظت کے لئے بحثیت نائب کمانڈر فرائض منصبی ادا کئے۔ اس کے علاوہ پاک نیوی کے بہت سے ڈائریکٹوریٹس میں بحثیت سٹاف ڈائریکٹر کام کیا۔ آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے 22 دسمبر1984ء کو ایران کے دارلحکومت تہران میں پاکستانی سفارتخانے میں نیول و فضائی اتاشی تعینات کردیا گیا۔ آپ نے اپنا دورانیہ بحثیت اتاشی بخوبی 2 جنوری1988ء تک مکمل کیا مگر نئے آنے والے آتاشی نے اگلے چھ ماہ تک آپ کو وہیں معاونت کے لئے رکھا۔ آپ اپنی فیملی سمیت جولائی 1988ء کے اواخر میں واپس پاکستان آنا چاہتے تھے۔ اس دوران ایران عراق جنگ جاری تھی۔ پاکستانی سفارت کار اپنی فیملیز کے ساتھ تہران میں رہتے تھے اور کیپٹن منیر ارشد بھی اپنی رفیقہ حیات محترمہ عارفہ اور دو بیٹیوں وجیہہ اور احریمہ کے ہمراہ تہران میں مقیم تھے۔ حالتِ جنگ میں ہونے کے باعث دارالحکومت تہران میں بھی اشیاء خوردونوش کی شدید قلت ہوتی تھی۔ لہذا سفارت کاروں کو خریداری کے لئے قریبی ممالک میں جانا پڑتا تھا۔ وطن واپسی سے پہلے آپ نے بغرض خریداری دوبئی جانے کا فیصلہ کیا۔ 3 جولائی1988ء کو ایرانی ایئرلائن کی فلائٹ 655 براستہ تہران بندرعباس تا دبئی کے لئے روانہ ہوئے جسے امریکی فوج نے SM-2MR میزائل سے تباہ کر دیا جس سے طیارے میں سوار دو سو نوے افراد جاں بحق ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں عملہ کے سولہ اور چھیاسٹھ بچوں سمیت تمام مسافر جو ایران، اٹلی، متحدہ عرب امارات، بھارت، یوگوسلاویہ اور پاکستان سے تعلق رکھتے تھے ہلاک ہو گئے۔ کیپٹن منیر ارشد اور ان کے اہلخانہ کی لاشوں کی شناخت ان کے ڈرائیور فیاض بلوچ نے کی۔ فیاض بلوچ نے کیپٹن منیر ارشد کو ان کے جوتوں سے اوران کی زوجہ کو سونے کی چوڑی جو وہ اکثر پہنتی تھیں سے شناخت کیا۔ مگر اُن کی بیٹیوں کی لاشیں نہ مل سکیں۔ شہادت کے وقت اُن کی بیٹیوں کی عمر پندرہ سال اور گیارہ سال بالترتیب تھی۔ 12 جولائی1988ء کو پاک فضائیہ کا C-130 طیارہ میتوں کو لے کر اسلام آباد پہنچا جہاں مسلح افواج کے افسران اور خاندان کے افراد نے میتوں کو وصول کیا۔ موسلادھار بارش کی وجہ سے آپ کا جنازہ 13 جولائی1988ء کو سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں ادا کیا گیا۔ صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق مسلح افواج کے سربراہان اور سول و فوجی افسران نے شرکت کی۔ کیپٹن منیر ارشد کے جسدِ خاکی کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی اور آپ کی بیٹیوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔آپ کے سُسر رشید کی خواہش پر ان کے جسدخاکی کو اسلام آباد میں سپردِ خاک کیا گیا۔
جنازے کے فوراً بعد آپ کے بھائی میجر جنرل وحیدالدین ارشد تہران سے آپ کے تمام سامان و زیراستعمال اشیاء واپس لائے اور آپ کی جائیداد کو فروخت کرتے ہوئے بستی لابر شجاع آباد میں کیپٹن منیر ارشد میموریل سکول قائم کیا جہاں علاقہ کے غریب اور نادار بچوں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔
آپ بہت ،نرم دل، قابل اور ذہین انسان تھے۔ آپ کی پوری زندگی اپنے خاندان کے گرد گھومتی تھی۔ آپ ایک اچھے فوٹو گرافر بھی تھے اور آپ کی بیوی مصورہ تھیں۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں 16 جنوری2017ء کو تہران مین پاکستانی سفیر آصف دُرانی نے ایک یادگاری نصب کی۔ 3 جولائی 2017ء کو کیپٹن منیر ارشد کی 29ویں برسی کے موقع پر کیپٹن منیر ارشد شہید اور ان کی شہید فیملی کے لئے پاکستانی سفارتخانہ تہران میں فاتحہ خوانی کی گئی۔ ملٹری اتاشیوں کی ایسوسی ایشن نے بھی کیپٹن منیر ارشد کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ تہران میں چین کے سفارخانہ میں ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
شہید کیپٹن منیر ارشد کے بھائی نصیر ارشد نے بتایا کہ 1988ء کے آغاز میں حکومتِ پاکستان نے تہران میں موجود پاکستانی سفارتکاروں کو خاندان سمیت وطن واپس لانے کے لئے خصوصی طیارہ روانہ کیا۔ کیپٹن منیر ارشد شہید کی فیملی بھی پاکستان آئی اور دو ہفتے قیام کرنے کے بعد واپس تہران چلے گئے۔ اچانک ایک دن کیپٹن منیر ارشد پاکستان آئے اور ملتان میں اپنی والدہ و دیگر عزیزواقارب کو ملے۔ بذریعہ ٹرین و سڑک پاکستان آتے ہوئے ٹرین پر فضائی حملہ ہو گیا مگر اللہ تعالیٰ نے کیپٹن منیر کو محفوظ رکھا ۔ چند دن پاکستان رہنے کے بعد آپ واپس تہران چلے گئے۔ کیپٹن منیر ارشد کی والدہ جو شدید علیل تھیں 3 جولائی1988ء کو بسترِ علالت پر بڑی بے چینی سے دائیں بائیں کروٹیں لے رہی تھیں کیونکہ ممتا بے چین تھی اور اُسی دن کیپٹن منیر ارشد شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔
ربِ العزت سے دعا ہے کہ کیپٹن منیر ارشد اور ان کے اہلخانہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین