خطبہ ٔ حج: نفرتیں ختم، آزمائش میں صبر کرنے پر زور
آج عیدالاضحی ہے۔ یہ اسلامی تقویم کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے، جو ایک طرف ہمیں اسلامی تاریخ سے جڑے ایک عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتا ہے تو دوسری جانب ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس دن کی یاد منا کر اس بات کی گواہی دیں کہ ہم اللہ اور اس کے دین کے ساتھ وابستگی کے اظہار کے راستے میں کسی رشتے ناتے کو اپنے لیے رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ اسلامی تقویم کا رواں ماہ اس حوالے سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں حج جیسا مقدس فریضہ ادا کرنے کے لیے لاکھوں فرزندانِ توحید دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں سے سفر کر کے حجاز پہنچتے ہیں اور وہاں ایک خاص وقت تک قیام کر کے مخصوص طریقے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ حج کے حوالے سے وقوفِ عرفہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور یہی حج کا رکن اعظم بھی ہے۔ اس موقع پر خطبۂ حج بھی دیا جاتا ہے جو پوری مسلم دنیا میں نہ صرف عقیدت و احترام سے سنا جاتا ہے بلکہ اس میں کہی گئی باتوں کو قریب قریب وہی اہمیت دی جاتی ہے جو کسی ملک کے معاملات کے سلسلے میں کسی پالیسی بیان کو حاصل ہوتی ہے۔
اس سال خطبۂ حج شیخ بندر بن عبدالعزیز بلیلہ نے دیا جو مسجد الحرام کے امام اور سعودی عرب کی سینئر علما کونسل کے رکن ہیں۔ مسجد نمرہ میں انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ آپس میں مساوات اور ہمدردی کے تعلقات قائم کرو۔ اللہ کی عبادت کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، قریبی رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے ساتھ احسان کرو۔ اپنے وعدوں کو اللہ کی رضا کیلئے پورا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ معاشرے اور معاشرتی معاملات میں احسان کو قائم کرو۔ جانور کو جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو تاکہ اسے تکلیف نہ ہو۔ جب انسان احسان کرتا ہے تو اللہ لوگوں کو آفت سے محفوظ فرماتا ہے۔ عداوت اور نفرت کو ختم کرو۔مصائب اور مشکلات پر صبر کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے تو وہاں نہ جائو، اورجس علاقے میں طاعون پھیلے وہاں کے لوگ باہر بھی نہ نکلیں۔ اپنے علاقوں اور شہروں کے لیے دعا کریں۔ امام کعبہ نے خطبۂ حج میں کہا کہ مسلمان آپس میں عداوت اور نفرت کو ختم کر دیں۔ بے شک اللہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے جیسے تم پر احسان کیا ویسے تم بھی لوگوں پر احسان کرو، اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے۔میدان عرفات میں 60 ہزار عازمین نے حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کیا جن میں 4600پاکستانی بھی شامل تھے۔
شیخ بندر بلیلہ نے جو کچھ کہا وہ باتیں ہماری عمومی معاملات سے زیادہ تعلقات رکھتی ہیں اور ان کے خطبۂ حج میں بیان کیے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کو اپنے عمومی رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو ایسا بنا سکیں کہ وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کی بنیاد بن سکیں۔ رواں برس حج کے خطبہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلنے والی وبا کے بیان کو بھی خصوصی اہمیت دی گئی تاکہ لوگوں کو سمجھایا جاسکے کہ اس وبا سے خود کیسے محفوظ رہنا ہے اور دوسروں کو کیسے بچانا ہے۔ اس وقت پوری دنیا بری طرح اس وبا کی گرفت میں ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس وبا کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ کروڑوں اس کی وجہ سے بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں اور کورونا ایک عفریت کی طرح دنیا بھر میں لوگوں کو مسلسل نگلتا چلا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت سے آنے والی وائرس کی ڈیلٹا ویریئنٹ نامی نئی شکل نے مزید خدشات و خطرات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جو اس وبا سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے لیکن ہمارے ہاں بھی اس وبا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد تیئس ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے اور متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس وبا نے معیشتوں کو جو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور جو کاروبار تباہ کیے ہیں وہ سب اس کے علاوہ ہے۔
اس وبا سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے دنیا بھر میں مختلف ادارے اور حکومتیں لوگوں کو مسلسل بتارہی ہیں کہ کون سی حفاظتی تدابیر (ایس او پیز) اختیار کرنے سے اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں خطبۂ حج میں کہی گئی باتوں پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں کسی ایک شخص کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے اور کسی ایک شخص کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے جیسا ہے۔ اگر جان بوجھ کر ہمارے حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کوئی شخص اس وبا سے متاثر ہوتا ہے اور خدانخواستہ اس وجہ سے وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں اس بات کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی وجہ سے متاثر ہونے والا شخص اپنے خاندان کا واحد کفیل ہو، لہٰذا بہت زیادہ احتیاط کیجیے۔ یہ وبا ایک حقیقی وجود رکھتی ہے ، لہٰذا ایسے لوگوں کی باتیں میں ہرگز مت آئیں جو اسے مختلف ممالک اور اداروں کی سازش قرار دیتے ہوئے اس وبا کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ دنیا کی دیگر حکومتوں کی طرح حکومت پاکستان بھی عوام کو اس وبا سے بچانے کے لیے ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت کا ساتھ دیں اور ویکسین لگوانے کے علاوہ حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے اس وبا پر قابو پانے میں حکومت سے تعاون کریں تاکہ ہم جلد اس قابل ہوسکیں کہ پہلے کی طرح اس وبا کے خوف سے آزاد ہو کر زندگی گزار سکیں۔ عید خوشیوں کا تہوار ہے لیکن اس موقع پر بہت زیادہ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کریں تاکہ اس تہوار کی خوشیاں برقرار رہ سکیں۔