سر راہے
عید الاضحی پر گوشت کی تقسیم میں رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں
آج عیدالاضحی کے دن پاکستان کے کروڑوں مسلمان سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے جانور قربان کریں گے۔ قربانی کا یہ سلسلہ تین دن جاری رہے گا۔ اس دوران قربانی کا گوشت دوستوں ، رشتہ داروں اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب تک فریج اور ریفریجریٹر کی وبا عام نہیں تھی کوشش ہوتی تھی جلد از جلد سارا گوشت تقسیم کیا جائے اپنے حصے کا گوشت پکا کر رشتہ داروں کی ، دوستوں کی دعوت کی جاتی تھی ورنہ گوشت کے خراب ہونے کا خطرہ لگا رہتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ اپنا سارا حصہ تو قربانی کے بعد سیدھا فریج میں فریزر میں پہنچ جاتا ہے۔ زیادہ نیک لوگ تو سالم رانیں فریز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے بکرے عالم بالا میں میں تین ٹانگوں کے ساتھ مٹر گشت کرتے ہوئے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب ان کے مالکان فریج میں سے ان کی چوتھی ٹانگ نکال کر کھائیں اور وہ پوری چار ٹانگوں کے ساتھ دیگر بکروں کے ہمراہ اٹھکیلیاں کرتا پھرے گا۔
قربانی کے گوشت میں اپنے اور رشتہ داروں کے بعد ایک حصہ فقرا اور مساکین کا ہوتا ہے۔ قربانی کرنے والے مسلمان اس بات کا خاص خیال رکھیں اور یہ گوشت زیادہ سے زیادہ غریبوں میں تقسیم کریں خاص طور پر ان غربا میں جو سارا سال مٹن یا بیف کھانے کی سکت نہیں رکھتے۔
بے شک اللہ کریم کو نہ تو ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون وہ تو اپنے بندوں کی نیت اوردلوں کے تقویٰ کو قبول کرتا ہے۔ جب رب کے بندے خوش ہوں گے تو وہ بھی خوش ہو گا۔ رب کی خوشنودی کے لیے اس کے غریب بندوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کر کے حقیقی قربانی کے ثمرات سمیٹیں۔
٭٭٭٭٭
تیز بارش سے اسلام آباد ائیر پورٹ کی چھت پھر ٹپکنے لگی
گزشتہ بارش میں بھی اسلام آباد ائیر پورٹ کے ہال کی چھتیں جس طرح رم جھم کا منظر پیش کر رہی تھیں جگہ جگہ سے اکھڑ کر گر رہی تھیں۔ ایسا ہی منظر ایک بار پھر گزشتہ روز کی بارش میں دیکھنے کو ملا جب اسلام آباد ائیر پورٹ کی چھتیں یوں ٹپک رہی تھیں جیسے عمارت کے باہر ابر کرم برس رہا تھا۔ بارش کا پانی جھرنوں کی طرح باقاعدہ جل ترنگ بجاتے ہوئے ملہار کی طرح کانوں میں رس گھول رہا تھا۔
بات اتنی ہی رہتی تو برداشت ہو جاتی مگر جب چھتوں کی ٹائلیں اکھڑ کر گرنے لگیں تو معاملہ بگڑ گیا اور لوگ خوفزدہ ہو کر دور دور سے تماشہ دیکھنے لگے۔ یوں لگنے لگا گویا کسی پہاڑی علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ ہو رہی ہے۔ چٹاخ پٹاخ کی آوازیں عجب منظر پیش کرنے لگیں۔ ایسا سین شاید ناولوں ، افسانوں یا فلموں میں نظر آتا ہو۔
مگر حقیقت میں ایسا سین صرف اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہی دکھائی دیتا ہے۔ نجانے کیوں پچھلی بارش کے بعد کوئی حکومتی ادارہ یا سول ایوی ایشن والے حرکت میں نہیں آئے کہ ذرا اس ٹھیکیدار کے خلاف ہی ایکشن لیتے جس کی کمال محنت اور ہنرمندی کی وجہ سے ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کو مفت میں ایسا فلمی سین دیکھنے کو ملتا ہے۔
٭٭٭٭٭
عوام قربانی کی کھالیں مانگنے والوں سے ہوشیار رہیں
عید کے تین ایام میں لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ان کی کھالیں مانگنے کے بعد بے شمار حقیقی اور نام نہاد فلاحی ادارے اس موقع پر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اب تو خیر سے پڑھے لکھے لوگوں میں اس حوالے سے شعور بیدار ہو چکا ہے مگر اکثریت چونکہ نیم خواندہ یا مکمل ناخواندہ افراد کی ہے اس لیے وہ کھال دیتے ہوئے مذہب کے نام پر جذباتی طور پر بلیک ہو جاتے ہیں اور یہ کھالیں ایسے اداروں اور تنظیموں کو دے دیتے ہیں جو ان کھالوں کے مستحق نہیں یہ ادارے اور تنظیمیں ان کھالوں کی آمدن اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں فرقہ وارانہ جماعتیں اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
قوم پرست اوردہشت گرد تنظیمیں اور جماعتیں بھی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی میڈیا پر اخبارات میں عید سے قبل ہی اشتہاری مہم چلائی گئی ہے۔ جس میں ان تمام تنظیموں اور اداروں کے نام درج ہیں جنہیں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔
عوام بھی دیکھ بھال کر صرف حقیقی معنوں میں فلاحی کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو اپنی کھالیں دیں (میرا مطلب ہے جانوروں کی کھالیں) اپنی کھال تو قربانی کے ساتھ ہی قصاب اتار لیتے ہیں کیونکہ اس وقت چھوٹا جانور 5 ہزار اور بڑا 12 ہزار سے کم پر ذبح کرنے کا ریٹ کم از کم ہے۔ قربانی کرنے والے اب کیا کریں وہ جانوروں سے پہلے ہی قصابوں کے ہاتھوں اپنی کھال اتروانے پر مجبور ہیں۔ لوگ بھی دو نمبر قصابوں سے ہوشیار رہیں وہ پیسے بٹورنے کے علاوہ قربانی کا گوشت بھی خراب کرتے اور کھال بھی ضائع کر دیتے ہیں…
٭٭٭٭٭
قیمتوںپر عملدرآمد میں غفلت پر افسروں کیخلاف کارروائی ہو گی: وزیر اعظم
کب ہو گی کون کرے گا یہ کارروائی۔ اس کا فیصلہ نہ پہلے کبھی ہوا تھانہ اب ہونے کی امید ہے۔ بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد کی حالت سب کے سامنے ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کنٹرول نہیں ہو رہا۔ لوگ دہائیاں دے رہے ہیں۔
جب خود حکومت اشیائے خورد و نوش، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے نرخ بڑھائے گی تو تاجر بھلا کب کس کی سنیں گے۔ اس وقت عید الاضحی کی وجہ مارکیٹ میں دکانوں پر کسی کچن آئٹم کو ہاتھ نہیں لگ رہا عام معمولی سے معمولی سبزی بھی ڈیڑھ دو دو سو روپے سے کم نہیں مل رہی۔ اب جائیں تو جائیں کہاں۔ یہی حال چاول ، آٹا ، چینی اور آئل و گھی کا ہے۔ اب یہی ہو سکتا ہے لوگ عید پر قربانی کا گوشت آگ پر بھون کر یا پانی میں ابال کر کھائیں اور گزارہ کریں۔
کہتے ہیں ’’گُر بہ کشتن روز اول۔‘‘ اگر مہنگائی کرنے والے عناصر کو پہلے بار ہی سختی سے کنٹرول کیا جاتاتو آج وزیر اعظم کو یہ کہنے کی نوبت نہ آتی۔ اب بھی اگر نیت صاف ہو تو حکومت مہنگائی مافیا کی کمر توڑ سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ سفارش ، تعلقات ، مالی امداد اور سیاسی قرابت کو قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔
٭٭٭٭٭