اخلاقیات کا بحران اور قربانی
عالم اسلام اور پاکستان کے عوام اخلاقیات اور کردار کے بحران سے گزر رہے ہیں - اخلاقیات کا بحران ہی سیاسیات معاشیات اور سماجیات کے بحرانوں کا سبب بنتا ہے اور یوں سماج افراتفری نفسانفسی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے- اخلاقیات کے بحران کی وجہ سے ریاستی ادارے مفلوج اور گڈ گورننس محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے-اگر پاکستان کے بانی اور محسن قائد اعظم محمد علی جناح اخلاقی زیور سے آراستہ نہ ہوتے تو پاکستان کا حصول ہی ناممکن ہو جاتا-قائداعظم نے امانت دیانت صداقت شجاعت تحمل و برداشت وعدہ وفائی کی خوبیوں کی وجہ سے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا-
اخلاقیات انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام پر پر فائز کر کے اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے- جب انسان اخلاق کو چھوڑ دیتا ہے تو پھر انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا- انسان کی عقلی قوت اسکے اخلاقی رویے کے تحت کام کرتی ہے تو سماجی معاملات درست ٹریک پر چلتے ہیں اور اگر سفلی غیر انسانی جذبات غلبہ پا لیں تو انسان اخلاقی وجود سے ملنے والی توانائی سے محروم ہو جاتا ہے اور اسکی عقلی استعداد کمزور اور کم ہونے لگتی ہے پھر معاشرہ درندگی اور وحشت کا شکار ہوجاتا ہے- انسان اخلاقیات اور روحانیات سے عاری ہو کر عقلی قویٰ کھو بیٹھتے ہیں اخلاقیات سے عاری سماج معاشی دہشت گرد بھی پیدا کرتا ہے جو عوام کا استحصال کرکے ذخیرہ اندوزی کرکے اور ناجائز منافع خوری کرکے ان کو بنیادی حقوق اور معیاری زندگی سے محروم کر دیتے ہیں- اجتماعی زندگی کا اصل حسن ایثار خیرات احسان انصاف حسن معاملات اخوت برداشت اور رواداری جیسے آفاقی اور سنہری اصول ہیں-اخلاقی حسن سے معاشرے پھلتے پھولتے اور نشونما پاتے ہیں- اخلاق ہی سے اچھے انسان وجود میں آتے ہیں - قرآن اور سیرت دونوں اخلاقیات پر بہت زور دیتے ہیں - انسان کے اخلاقی وجود اور انسانیت کی تعمیر و تشکیل کیلئے بنیادی اصولوں کی نشاندہی کرکے اسے ضابطہ حیات قرار دیتے ہیں -
اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے اخلاقی وجود پر قائم رہتے ہوئے دنیا کو امن اور سکون کا گہوارہ بنائیں-ایک صحابی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا کہ اخلاق کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم اخلاق کے اعلی درجے پر فائز ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی مثالی اخلاقی ماڈل ہے- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج میں صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ اس کائنات کے سب انسانوں سے خطاب کیا ان کا یہ خطاب انسانی حقوق کا پہلا چارٹر ہے ہم پاکستانی آج اس چارٹر سے بھی بہت دور جا چکے ہیں-اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا اور انکے جسد خاکی میں روح پھونکی تو اسکے بعد اللہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ وہ تھوڑے فاصلے پر جائیں تو ان کو فرشتوں کا ایک گروہ ملے گا آپ ان کو اسلام علیکم کہیں فرشتے جو جواب دیں وہ آپ کی آنے والی نسلوں کیلئے دعائیہ کلمہ ہوگا-حضرت آدم علیہ السلام جب فرشتوں کے پاس گئے تو انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق ان کو السلام علیکم کہا فرشتوں نے جواب میں کہا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ یعنی آپ پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو - یہ تھا وہ اخلاقی زیور جو اللہ نے اپنے بندوں کو دیا - افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے دعائیہ کلمات کو محض رسم سمجھ رکھا ہے جبکہ یہ ایک دینی فریضہ ہے-
آج کل سب مسلمان ایک دوسرے کو اسلام علیکم تو کہتے ہیں مگر اسکے مفہوم سے واقف نہیں ہیں-
اللہ تعالی نے قرآن میں السلام علیکم کو ایک بابرکت پاکیزہ تحفہ قرار دیا ہے- جب ہم ایک دوسرے کیلئے سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہیں تو پھر اسکے بعد ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم اس انسان کیلئے برائی کا سوچیں یا اسے ہماری زبان اور ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچے - اللہ تعالیٰ کے اس بابرکت اور پاکیزہ تحفہ کا مقصد بھی یہی تھا کہ انسان اخلاقیات سے جڑے رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اخوت کا مظاہرہ کریں- ایک دوسرے کیلئے زحمت نہیں بلکہ رحمت بنیں-
قوموں کے عروج و زوال پر گہری تحقیق کرنیوالے معروف مؤرخ علامہ ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق لافانی تصنیف "مقدمہ ابن خلدون" میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں ترقی کرنیوالی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی حامل ہوتی ہے- آج بھی وہ قومیں جو اخلاقیات کے زیور سے آراستہ ہیں دنیا کی عظیم قوموں میں شمار ہوتی ہیں- مسلمان جب تک اخلاقی اقدار کے حامل رہے انکی پوری دنیا پر بالادستی رہی -مسلمان اخلاقی بحران کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو گئے-علامہ اقبال کا قول ہے کہ جب بھی مسلمان زوال کا شکار ہوئے قرآن اور سیرت نے ہی انکی رہنمائی کی اور وہ زوال سے باہر نکل سکے- جس معاشرے میں انصاف برداشت ہمدردی عفودرگزر صداقت امانت دیانت محبت مساوات جیسی خوبیاں نہ ہوں وہ سماج کبھی ترقی نہیں کرسکتا-محترم قارئین کو عیدالاضحی کی دلی مبارک باد قبول ہو یہ خوشی کا تہوار ہے اللہ تعالی کے حکم کیمطابق ہم عیدالاضحی کے موقع پر قربانی بھی کرتے ہیں ایک حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب قربانی کا جانور ذبح کرنے لگو تو چھری کو اس کے سامنے تیز نہ کرو اسے جانوروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھو تاکہ جانور کو قربانی سے پہلے اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام سے زیادہ اور کوئی مذہب رحمت والا نہیں ہے-اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم قربانی کا گوشت اپنے عزیزواقارب یا بڑے لوگوں میں ہی تقسیم کردیتے ہیں- اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو گوشت تقسیم کریں جن کی مفلسی کی وجہ سے گوشت کھانے کی استطاعت ہی ختم ہو چکی ہے- عبادات کی طرح اللہ تعالی نے قربانی کو بھی تقوی یعنی نیکی کرنا پرہیز گاری اختیار کرنے کے ساتھ جوڑا ہے- قرآن پاک میں اللہ تعالی نے سورہ الحج کی آیت نمبر 37 میں ارشاد فرمایا کہ" اللہ کو نہ تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون بلکہ صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے اللہ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے تاکہ اسکی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اسکی تکبیر کرو"قربانی پرستش اور اطاعت کا نقطہ کمال ہے اسے نمود و نمائش کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے - اللہ تعالی نے سورہ الانعام کی آیت نمبر 162 میں ارشاد فرمایا " کہہ دو میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا تمام جہانوں کے رب کیلئے ہے- کاش ہم مسلمان اپنی اخلاقی اقدار کی جانب واپس لوٹ آئیں تو پاکستان اپنے تمام مسائل پر قابو پا کر دنیا کی ایک عظیم قوت بن سکتا ہے-
کائنات میں اخلاقی قوت سب سے بڑی قوت ہے جس نے انسانی تاریخ میں عظیم معجزے کر دکھائی ہیں -آج بھی دنیا کے عظیم ممالک اخلاقیات کے حوالے سے بہت اعلی مقام پر ہیں جبکہ پاکستان امانت اور دیانت کے حوالے سے دنیا کے ممالک سے بہت پیچھے ہے-ہمارے پاس اللہ کی ہدایت کی کتاب قرآن پاک موجود ہے جس کو پڑھ کر اور سمجھ کر اور اس پر عمل کرکے ہم ایک بار پھر دنیا کی عظیم قوم بن سکتے ہیں-