معراج محمد خان ایک مسلسل جدوجہد کا نام
معراج محمد خان مرد آہن تھے زندگی مسلسل جدوجہد میں گذاردی۔جو لوگ ان کو زمانہ طالب علمی سے جانتے ہیں وہ ان کو ایک بلند پایہ پرمغز دلائل کے ساتھ خطاب کرکے طالب علموں، مزدوروں اور کسانوں کو اپنا گرویدہ بنانے والا نوجوان سمجھتے تھے۔لیکن معراج محمد خان میں صرف یہ خوبیاں ہی نہ تھیں وہ اپنی شخصیت میں ایک مکمل انجمن تھے جوا ن کے ساتھ مل جاتا انہی کا ہوکر رہ جاتا ان میں اور دیگر ترقی پسند لیڈروں میں فرق یہ ہے کہ وہ ترقی پسند سیاست کو عوام تک لے جانے کے حامی تھے، جبکہ ہمارے دوسرے لیڈر کنویں کے مینڈک کی طرح چھوٹی چھوٹی لیفٹ کی پارٹیوں کو ہی سمندر سمجھتے تھے۔
1960ء کی دہائی میں طالب علم لیڈروں کو جیل بھیجنے کی بجائے شہر بدر کرنے کا رواج تھا۔ معراج محمد خان کی شعلہ بیانی اور پر مغز تقاریر مشکلات پیدا کر دیتیں اور ان کو ایک شہر سے دوسرے شہربھجوا دیا جاتا۔ان کے عوامی انداز اور شعلہ بیان خطابت نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا اور 1967ء میں بننے والی پیپلز پارٹی کی تمام مجلسوں کامعراج محمد خان جھومر ہوا کرتے تھے۔ معراج محمد خان نے بائیں بازو کے دوستوں جو کہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، مزدور یونین کے پاکستان بھر میں ہر طرف جھنڈے نظر آتے تھے ، فیکٹریوں ، کالجوں ، کھیت مزدور میں سوشلزم بحث عام تھی اور پاکستانی اس نئے نظام کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ معراج محمد خان نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا :
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
ساری عمر چلے اور گھر نہیں آیا
معراج ساری زندگی انقلاب کے لئے جدوجہد رتے رہے اور آخری وقت تک جب ڈاکٹروں نے ان کو تقاریر کرنے سے منع کیا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے پرانے این ایس ایف کے ساتھی کی موت پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ باری تو میری تھی تم کیوں چلے گئے ‘‘ اور اس کے بعد کچھ دنوں میں معراج محمد خان ڈاکٹر رشید حسن کے پاس چلے گئے۔
معراج محمد خان ایک عملی سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک ہمدرد انسان بھی تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں جب ان کو گرفتار کر لیا گیا توا ن کے ساتھ قومی محاذ آزادی کے خواجہ سلیم، ریاض لون ، اقبال حیدر اور سلطان بٹ بھی گرفتار ہوگئے۔ احمد علی بٹ پہلے ہی جیل میں تھے۔ معراج محمد خان نے مجھے سختی سے ہدایت کی کہ گرفتار نہیں ہونا، اگرچہ اس بناء پر مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر میں نے ہرممکن وعدہ نبھایا معراج محمد خان جیل میں بیمار ہوئے تو ان کو فیصل آباد ہسپتال داخل کرایا گیا بعد میں ان کو لاہور کے میو ہسپتال میں رکھا گیا۔ وہ بچوں سے بہت پیار کرتے۔ میں جب بھی کبھی اپنی بیگم بشریٰ کے ساتھ ملنے جاتا تو وہ میرے بیٹے حسام کو گود میں لے کر پیار کرتے اور کہتے اس کو صبح یہاں چھوڑ جایا کرو میرا دل سارا دن لگا رہے گا۔معراج محمد خان کا اصول یہ تھا کہ سیاست میں جتنا آپ کے ساتھ کوئی چل سکتا ہے چلاؤ اس پر زیادہ بوجھ مت ڈالوکہ اسکے حالات سیاست سے کنارہ کشی نہ کروا دیں اور جو سیاست نہیں کام کرنا چاہے اس کو وہ اس سوچ سے بڑا عہدہ دیتے ایم آر ڈی میں بطور پنجاب جوائنٹ سیکرٹری اور قومی محاذ آزادی پنجاب کے صدر ہونے کی وجہ سے مجھ پر بہت ذمہ داریاں تھیں ، مگر معراج محمد خان ہر میٹنگ میں مشکلات کا حل نکال دیتے۔ پرویز صالح کو میں فیصل آباد جیل میں معراج محمد خان سے ملاقات کروانے لے کر گیا انہوں نے قومی محاذ آزادی میں شمولیت اختیار کر لی تو معراج محمد خان نے ان کو قائم مقام چیئرمین بنا دیا یوں پرویز صالح نے بھی خوب کام کیا اس خلا کو پر کرنے کا یہی بہتر طریقہ تھا۔ معراج محمد خان جب میو ہسپتال میں تھے توان کی قابل احترام بیگم بھابی زبیدہ نے بھی ملاقات کرنے کو کہا اس وقت کے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پال صاحب تھے میں نے ان کو ملاقات کیلئے درخوست دی تو حکومت ان کو دوبارہ فیصل آباد جیل منتقل کرنے لگی تو میں نے فوری طور پرانکے ڈاکٹر نیورو سرجن کے بارے میںمعلومات حاصل کرکے راجہ محمود اختر سابق صدر لاہور ہائیکورٹ کو ساتھ لیا اور انہوں نے معراج محمد خان کو جیل حکام کے حوالے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا مریض اس قابل نہیں ہے کہ اس کو جیل بھیجا جا ئے، حکومت پنجاب سے اجازت نامہ آنے سے پہلے ہی میں نے بھا بی زبیدہ کو بلوا لیا اور وہ ملاقات کرکے چلی گئیں۔معراج محمد خان بہت رحم دل اور انسان دوست تھے ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ میرے ساتھ چلو،اور مجھے فاطمہ جناح میڈیکل کا لج کیساتھ ایک کچی بستی میں لے گئے۔ وہاں ایک بوڑھا شخص اپنے چھ سات بچوں کے ہمراہ رہ رہا تھا اور ان کو اس جگہ سے نکالا جارہا تھا مجھے معراج محمد خان نے ان سے ملوایا اور ایک رقعہ دے کر حافظ قاسم جو اس وقت ایل ڈی اے الاٹمنٹ ڈائریکٹر تھے ، کے پاس بھیجا۔ وہ فیصل آباد جیل سپرنٹنڈنٹ سے ٹرانسفر ہوکر آئے تھے اور کراچی سے معراج محمد خان این ایس ایف کے حوالے سے واقف تھے میں ان سے ملا تو انہوں نے کہا کہ وہ صاحب کو لے آؤ دوسرے دن میں ان کو ساتھ لے کر گیا تو اس شخص نے پوچھا کہ آپ معراج محمد خان کو کیسے جانتے ہیں انہوں نے بتایا کہ جب فیصل آباد میں تھے تو میری بیٹی جو وہاں نرس تھی اس نے بتایا کہ ہمارے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں اور یوں معراج محمد خان نے ایک بے گھر خاندان کو گھر الاٹ کروادیا۔ سیاسی گفتگو ساری ساری رات کرتے رہتے اور نہ تھکتے تھے۔ ایک دفعہ ریاض لون ایڈووکیٹ اور میرا پارٹی میں کسی ایشو پر اختلاف ہو گیا اور وہ تمام رات دونوں کو سمجھاتے رہے۔ اور صبح پھر 9 بجے آجاتے۔ وہ اپنے پارٹی کے ساتھیوں کے علاوہ دوسرے ترقی پسند کارکنوں کے گھر چلے جاتے۔ اور ان کی مشکلات دور کر دیتے۔ پارٹی کے کارکن اگر بیمار ہوتے تو ان کا علاج اپنے اثر ورسوخ سے کراتے ، اپنے ساتھی و لیڈر حبیب اللہ شاکر کا علاج انہوں نے کراچی کے بڑے ڈاکٹر سے کروایا۔
معراج محمدخان ایک خوبصورت انسان ،اعلیٰ سیاسی شخصیت اور ایک ایماندار ترقی پسند سیاسی لیڈر تھے جن کے پایہ کا اب شاید کوئی سیاسی رہنما نہ آ سکے جو ترقی پسند سیاست چھوٹے چھوٹے گروپوں سے نکال کر عوامی سطح پر لے جائے۔ وہ ساری زندگی تنگ ذہن رکھنے والے سیاسی لوگوں کے ساتھ نہ چل سکے چاہے وہ کوثر نیازی ہو یا پھر عمران خان کا کزن نیازی ہو۔