معروف صحافی اور شاعر چراغ حسن حسرت کے بہت سے شعر آج بھی دہرائے جاتے ہیں ،ان کی جانب زہن اس وجہ سے چلا گیا کہ جب سے انٹر نیٹ کی سہولت آئی ہے ماضی میں جھانکنا بہت ہی ااسان ہو گیا ہے ،کوئی سنسر بھی نہیں ہوتا ،حقائق پوری عریانیت کے ساتھ موجود ہیں،بس سمجھنے کی خواہش ہونا چاہئے ، یہی دو دہائی پہلے ہی کی بات ہو گی جب صحافت میں ماسٹرز کرنے والو ں کو بعض اوقات ’کونٹینٹ انیلیسز‘‘ کرنے کے لئے کہا جاتا تھا ،بڑا ہی مشکل کا م سمجھا جاتا تھا ،پرانے اخبارات کی تلاش اور ان کو پڑھنا اور پھر اپنے موضوع پر مواد نکالنا ناممکن تو نہیں آسان بھی نہیں تھا ،مجھے یاد ہے کہ خاک نشیں سے ایساہی تجزیہ استاد محترم نے کرایا تھا جس میں مجھے یہ تلاش کرنا تھا کہ فلاں سال سے فلاں سال تک مین سٹریم اخبارات نے پی پی پی کو کتنی مثبت اور منفی کوریج دی ہے ،اس کے نتایج اب بھی متعلق ہیں ان پر پھر کبھی بات ہو گی ،دوچار روز ہوئے کچھ ماضی میں نیٹ کی مدد سے جھانکنے کا موقع مل گیا ،نہ جانے کیوں ما ضی کی جھلک اور آج کی حقیقت کے باعث خود سے بے زاری سی محسوس ہونے لگی کہ ہم کیسے لوگ ہیں جو کسی کو بھی اس کی زبان کی کسوٹی پرنہیں پرکھتے اور دھوکہ کھائے چلے جاتے ہیں ، مولانا چراغ حسن حسرت کے اشعار گونجنے لگے جن میں کہا گیا تھا کہ وعدہ بے شک ایفا نہ کرتے ،وعدہ کر تو لیتے، حضرت شاعر کا مطلب جو بھی تھا، مگر سچ ہے کہ تو ہم صرف وعدوں پر جینے والے لوگ ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ وقت کے شداد ہمیں زمین پر جنت دینے کا وعدہ کریں،ہمیں اس وعدے کے ایفا ہونے کی خود بھی خواہش نہیں
ہوتی، ماضی کے دس سال کو دیکھ لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ،زبان اور عمل کے اس تضاد نے کہیں کا نہیںچھوڑا ہے ،ہم چاہتے ہیں کوئی ہم سے غربت،بے روز گاری،کرپشن،بد نظمی کے خاتمہ ،اھتساب ،انصاف دینے ،شاہانہ طرز زندگی کی روک تھام ،میرٹ پر کام ،اقربا پروری کو جڑ سے اکھاڑنے کا وعدہ کرئے ،ہم اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں،کیونکہ ہمیں ان وعدوںسے تسکین حاصل ہوتی ہے ،ہمارے اندر اس کی تمنا تو ہے مگر جب ہم ان وعدوں کی دھجیاں فضا میں اور چپے چپے پر بکھری دیکھتے ہیں تو کوئی رد عمل نہیں دیتے اور چپ سادھ کر اگلے وعدوں کا ن انتظار شروع کر دیتے ہیں ،یہی چیز ملک کا مسلہ نمبر ایک ہیں ،وعدے کرنے والوں،ڈوریاں ہلانے والوں،سر تال پر ناچنے والوں کو عوام کی اس کمزوری کا پورا پورا پتہ ہے ،اس لئے تیھیوریز گھڑ گھڑ کر لوگوں میں پھیلا ئی جاتی ہیں،پانی کو گدلا کئے رکھو اپنے آپ سب نیچے بیٹھ جائیگا ، میرے وطن کے پیارے لوگوں اب خواب غفلت سے جاگو اور وعدوں کی تکیل کامطالبہ کرو،جس دن تم نے گلی گلی،سڑک سڑک پوچھنا شروع کر دیا کہ جب ریاسست کی ساری طاقت ہوتی ہے ،تو پھر دیر کس بات کی ہے ؟’آپ جناب‘ نے جو فلاں فلاں تبدیلی کے وعدے فرمائے تھے ان کا کیا کیا، کتنے غریب دلدل سے نکالے ،کتنی لوٹی دولت واپس آئی،میرٹ کا کیا ہوا ،روزگار کا کیا بنا ،بجلی ،گیس ،آٹا ،چینی کتنی سستی ہوئی ، کتنے نئے کاخانے لگ گئے ، اس روز سے تبدیلی آنا شروع ہو گی ،اگر کہا جائے کہ ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے تو شیر شاہ سوری تو اس سے کچھ ہی زیادہ وقت میں ایسے کام کر گیا تھا جو بعد ازاں مغل سلطنت کے بھی کام آئے ،ہمایوں اسے بادشاہوںکا ستاد کہہ گیا ،اس لئے وعدوں کی تکیل پر مجبور کرنا پڑے گا ،اگر وعدوں سے تسکین کی عادت کو ختم نہ کیا گیا تو پھر وہی ہو گا جو ماضی کا حصہ رہا ہے کہ پرانے چہرے ،پرانے وعدے ، نئے چہرے اور نئے وعدے،اور پھر وہی سب کچھ جو ہوتا آیا ہے ،کسی کا یہ بہانہ نہ سنا جائے کہ کام نہیں کرنے دیا جاتا ،ایک جنبش پر جب روٹ لگ جاتے ہیں ،ابرو کے اشارے پر جب افسر لائن حاضر ہو جاتے ہوںتو کوئی عذر قابل قبول نہ ہونا چاہئے ،یہ عوام کا مسلہ نہیں ہے کہ کام کیسے ہونا ہے ان کو کام کی جانب پیشرفت نظر آنا چاہئے ،خاک نشیں کا مخاطب عوام ہیں، تو جناب اب زرا حقائئق کو و خودپرکھنے کی عادت بنا لیں ،یقین کریں کسی کے اصل چہرے کو شناخت کرنا بہت ہی آسان ہے ،بس چند سال کے ماضی کو جان لیں،سب ریکارڈ پر ہے ،وعدے ضرور لیں مگر ان کی تکمیل پر پہرہ دیں،اور کوئی بہانہ نہ سنیں ،پرانی بات ہے کہ خاک نشین نے لکھا تھا کہ گرمی میں سرد اور سردی میں کوزی کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں کے ہاتھ کھلے ہوتے ہیں ،’’یہ کر دو،یہ نہیں ہونا چاہئے ،اس کو لے آو اور اس کو نہیں آنے دینا ،تو ایسا ہو جاتا ہے ،اس لئے جب ارادہ ہو تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے ،تلاش کریں کہ کون بات کا پکا ہے ،اور ڈٹ جانے والا ہے ،کون مسائل کی جڑ کو سمجھتا ہے ،اور کس کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہے ،قحط الرجال کے اس دور میں بھی ایسے مستانے موجود ہیں ،یہی مسلے کا حل ہیں ،جن کے پاس وژن ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہمت بھی موجود ہے ،ان کی جانب رخ کو موڑ لیا جائے ،ماضی کو سر پر سوار بھی نہ کیا جائے مگر اس کے حقائق سے نظریں چرانا بھی بہت غلط طرز عمل ہیں ،عزت کے میڈل تو درخشاں ماضی رکھنے والوںکو ہی ملتے ہیں ۔ڈر کا راج قائم کرنے یا زبردستی عزت کرانے کی کوشش سے وقت تو گذر جاتا ہے مگر قبروں کے نشان بھی نہیںمل پاتے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024