معیشت کو دستاویزی بنانے کا مبارک عزم
ایف بی آر کے چیئرمین شبرزیدی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں سیمینار اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والی کمپنی بند ہو جائے گی، شناختی کارڈ کی شرط ختم نہیں کر سکتے۔ اب زکوٰۃ صدقہ اور خیرات دینے سے کام نہیں چلے گا، ہر شخص کو مساوی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ 50 ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ دکھانا ضروری ہو گا۔ مگر ٹیکس فری ماحول کے عادی لوگ شناختی کارڈ کی شرط کی مخالفت کر رہے ہیں، جبکہ شناختی کارڈ تو بھکاریوں نے بھی بنوا رکھے ہیں۔
شبرزیدی کی باتیں بجا اور معقول ہیں اور جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق۔ معیشت کو دستاویزی بنانے پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم قابل تحسین ہے لیکن جس قسم کی اصلاحات کے نفاذ اور اُن پر عمل کا تقاضا کیا جا رہا ہے ، یہ ساری باتیں اس سوسائٹی کے لیے اجنبی ہیں ، جس نے منی ٹریل، منی لانڈرنگ، کالا دھن وغیرہ وغیرہ کا نام ہی پہلی بار سُنا ہے۔ جہاں تک اُنہوں نے زکوٰۃ ، صدقہ اور خیرات کی بات کی ہے ، اس کی صراحت ہونا ضروری ہے، ورنہ بڑا ابہام پیدا ہو گا۔ مغربی ملکوں میں سرمایہ دار حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور فلاحی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کرتے ہیں ۔ ایک مقولہ ہے ’’جو بادشاہ کا حصہ ہے وہ بادشاہ کو اور جو چرچ کا حق وہ چرچ کو‘‘ ہزاروں کیا لاکھوں یتیم صدقہ و خیرات پر پل رہے ہیں ا ور اسی قدر لوگوں کی گزر بسر زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ دونوں سسٹم ساتھ ساتھ چلائیں ، لوگوں کو دل کھول ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب بھی دیں اورانفاق فی سبیل اللہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ بصد ادب چیئرمین ایف بی آر سے اختلاف کرتے ہیں کہ زکوٰۃ ، صدقہ اور خیرات نے بھی حکومت کے حصے کا بہت بڑا بوجھ اُٹھایا ہوا ہے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ کوششیں جاری رکھیں۔ بے صبری کا اظہار اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا مظاہرہ درست نہیں ہو گا۔ آج ہم اس نوع کی پابندیوں سے ناآشنا معاشرے میں وہ اصلاحات لا رہے ہیں جو سکنڈے نیوین ایسی فلاحی ریاستوں میں نافذ ہیں‘ موجودہ حکومت اور اُس کی معاشی ٹیم نے ان اصلاحات کا آغاز کر کے تاریخی اقدام کیا ہے۔ یہ نقطہ آغاز ہے، تکمیل تک پہنچنے میں بہت وقت لگے گا۔ مایوسی اور بے صبری سے گریزکیا جائے۔