دفاعی پیداوار شراکت داری کی د عوت
آئی ایس پی آر کے مطابق بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز جی ایچ کیو میں دفاعی پیداوار اور سکیورٹی خودانحصاری کے ذریعے فوجی سلامتی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفاعی پیداوار کے لیے حکومتی اداروں کے ساتھ نجی شراکت داری ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اشتراک سے اس صنعت کو فروغ حاصل ہو گا۔ اس لیے کہ دفاعی پیداوار کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نجی سرمایہ کاروں کو اسلحہ سازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے کر اُن کے سامنے امکانات کی وسیع دُنیا کا دروازہ کھول دیا ہے۔ دُنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں میں تو پرائیویٹ سرمایہ کاروں نے د فاعی پیداوار ، اسلحہ سازی اور طیارہ سازی کی صنعت میں اربوں نہیں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ متعلقہ حکومتوں نے ان صنعتوں پر صرف اتنا کنٹرول رکھا ہوا ہے کہ وہ ہتھیار اور جنگی طیارے وغیرہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی ’’ناپسندیدہ‘‘ ملک کو نہیں بیچ سکتے لیکن جو سودا بک جاتا ہے وہ نہ صرف سرمایہ کاروں کے بنک بھر دیتا ہے بلکہ اُن ملکوں کے معاشی استحکام کا باعث بھی بنتا ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ اب تک پاکستان دفاعی پیداوار کے شعبے میں نجی سرمایہ کاروں کا کوئی حصہ نہیں ۔ اسلحہ سازی کی تقریباً ساری صنعت متعلقہ دفاعی اداروں کی تحویل میں تھی۔ ان اداروں کی ساکھ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے اور گھاٹا تو کسی صورت ممکن نہیں ان اداروں میں تیار ہونے والا اسلحہ اور ہتھیار معیار کے لحاظ سے دُنیا بھر میں بہترین سمجھے جاتے ہیں اور اچھی قیمت پر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں کیونکہ اس شعبے میں 2 نمبری کا گزر نہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کے ہتھیاروں نے عالمی مارکیٹ میں بھارت کے مقابلے میں اور گنجائش سے کہیں زیادہ جگہ حاصل کر لی ہے۔ خصوصاً ایف 17 تھنڈر طیارے نے تو مارکیٹ میں دھوم مچا دی ہے اور دھڑا دھڑ آرڈر چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جن کے پاس پیسہ ہے، مگر وہ ڈوبنے کے خطرے کے پیش نظر کہیں لگانے سے کتراتے ہیں ، اُن کے لیے یہ ایک نادر موقعہ ہے، اُنہیں اس پیشکش سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ مسلح افواج کے دفاعی پیداوار کے شعبے کو بھی اس حوالے سے سرمایہ کاروں کو ضروری رہنمائی فراہم کرنی چاہئے تاکہ خواہش مند کسی دقت کے بغیر آگے بڑھ سکیں۔ دفاعی پیداوار میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری، محض ایک آئیڈیا ہی نہ رہے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح حقیقت کا روپ بھی دھار سکے۔