شہہ رگ پاکستان کی پکار!
پاکستان ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک سیاسی بخار میں مبتلا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حالت انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے تعین کے بعد پیدا ہوئی ہے بلکہ سیاسی فضا میں اس قسم کے بخار کے نمودار ہونے کے آثار گزشتہ برس 2017ءکے آخری عشروں ہی میں محسوس ہونے شروع ہو گئے۔ جب آئین کی رو سے 2018ءکے ماہ جولائی میں عام انتخابات کے انعقاد کا غلغلہ شروع ہوا تھا‘ حقائق کچھ اسی طرح ہیں کہ سیاسی فضا کے انتخابی بخار میں مبتلا ہونے کی مہینوں سے عبارت مدت کے دوران اگرچہ کسی بھی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت اور ان کے سرکردہ رہنماﺅں کی زبان سے ایسے اہم ترین ملکی اور قومی معاملات کے بارے میں کسی قسم کی ٹھوس پالیسی کے حوالے سے اپنے دو ٹوک مو¿قف کا اظہار سننے میں نہیں آیا۔ جن معاملات کا تعلق براہ راست ملکی سلامتی اور اس کے عوام کی خوشحالی و بہتر مستقبل سے ہو‘ اور یہ معاملات کوئی نئے نہیں بلکہ وہ مسائل برسہابرس سے ملک کو درپیش ہیں۔ ان میں پاکستان کی زندگی سے جڑا ہوا مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے جبکہ اسی نسبت سے دوسرا سنگین معاملہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ہے۔ یہ ایسے سنگین مسائل ہیں جن کا براہ راست تعلق پاکستان اور پاکستانی عوام کے زندہ رہنے سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم کے ناخداﺅں نے اس سلسلے میں اس محسن اعظم کے فرمودات کو بھی فراموش کر رکھا ہے جس نے اپنی نحیف و نزار پیرانہ سالی کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف مومنانہ فراست کی بدولت متحدہ ہندوستان کے ٹکڑے کرکے قوم کو پاکستان ایسی عظیم نعمت عطا کی جس میں انہیں حصول اقتدار کا شوق پورا کرنے کی خاطر میدان سیاست میں حصہ لیکر انتخابات لڑنے کا موقع مل رہا ہے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم نے فرمایا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ایسے ہی حضرت قائداعظم اور تصورپاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تعلیمات اورفرمودات کے علمبردار شہسوار صحافت ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی یاد کا ستانا بجا ہے جنہوں نے فرمودات قائد و اقبال کو حرزجاں بنائے رکھا تھا۔ اپنی صحافت و خطابت کے کسی بھی موقع پر انہوں نے کشمیر کو بھارت کے چنگل سے چھڑانے کیلئے ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنے پر زور دینا نہ بھلایا۔ مرحوم کی اس پکار کی گونج ان کے خلد آشیانی ہونے کے بعد بھی پورے ملک میں سنی جاتی ہے اور عوام اس حقیقت کو بجا طورپر جزو ایمان سمجھتے ہیں کہ کشمیر‘ تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
مقام افسوس ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے کہ پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت سے جن نام نہاد سیاستدانوں کو کھیلنے کا موقع ملا‘ انہوں نے ملکی بقاءکے اس اہم مسئلہ کو اپنی ذاتی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھائے رکھا۔ ایسے حالات ہی کا منطقی نتیجہ ہے کہ بھارت کی متعصب پاکستان اور اسلام دشمن حکومتوں نے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے نہ صرف ظلم و تشدد کی انتہا کر دی بلکہ راہ آزادی کے متوالے مردوں‘ عورتوں حتیٰ کہ بچوں تک کو بھی انتہائی بے دردی سے موت کی نیند سلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس مقصد کیلئے یہ حقیقت اقوام عالم بھی جان چکی ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بھارت کی آٹھ لاکھ کے لگ بھگ اسلحہ سے لیس فوج تعینات ہے۔ بھارت کے انہی درندہ صفت فوجیوں کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری مسلمان خواتین کی عزت کی پامالی ہوئی۔
ستم باعث ستم یہ ہے کہ ارض وطن میں سفارتی محاذ پر بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو دنیا پر واضح کرنے کی کوئی مو¿ثر اور دیرپا پروگرام بھی مرتب کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوج اسی صورتحال میں جبروستم کی تمام حدیں عبور کر رہی ہے۔ آئے دن جن نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا جاتا ہے یا ان کی بہیمانہ کارروائیوں پر احتجاج کرنے والے نہتے بے گناہ کشمیریوں کو بھی گولیوں سے شہید کر دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے عوام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پر ہمہ وقت پژمردہ اور دل گرفتہ ہیں۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ ”بارہ مولا“ میں ایک تقریب کے موقع پر اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی 15 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ نے بڑی ڈھٹائی سے کہاکہ کشمیری نوجوان ہتھیار نہ اٹھائیں۔ عسکری جدوجہد بے فائدہ مشق ہے۔ انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو اپنی جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق جنرل بھٹ نے یہ بھی کہا کہ حریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ بھارتی افواج کی ایسی انسانیت سوز کارروائیوں کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں ہڑتالوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہاں کے رہنماﺅں کی پکڑ دھکڑ اور انہیں پابند سلاسل کرنا روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یٰسین ملک کو دس روز پابند سلاسل رکھنے کے بعد رہاکر دیا گیا۔ ایسے حالات میں جبکہ بھارت کے غاصبانہ قبضے میں مقبوضہ کشمیر کے علاقوں کپواڑہ اور بانڈی پورہ کے جنگلات کے وسیع حصے اور سوپور کے علاقے براٹھ گاﺅں کو بھارتی فوج کے سورماﺅں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ ایسے میں گھر گھر تلاشی کے دوران بھارتی فوج ڈرون طیاروں کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔ کشمیر اور اس کے حریت پسند عوام کیلئے اس قسم کی خون آشام کارروائیوں کا سامنا کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ اسے بھی اپنے دکھوں میں ڈوبے ہوئے کشمیری رہنما کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے جنوبی ایشیا سمیت عالمی امن کے استحکام کیلئے ایک مضبوط پاکستان کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ انہوں نے بلوچستان کے علاقہ مستونگ میں ہونے والے بم دھماکہ میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو عظیم قومی نقصان قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کے ازلی دشمنوں کے اشاروں پر دہشت گرد نہتے عوام کا خون بہانے سے گریز نہیں کر رہے۔ حالت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ شہریوں کی شہادتوں پر غمگین علاقوں میں سکول کے بچے اور بچیوں کی طرف سے احتجاجی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ جنہیں بھارتی فوج بینائی سے محروم کرنے والی بندوقوں کا نشانہ بناتی ہے۔
حریت رہنما سید علی گیلانی نے بجا طورپر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے ازدلی دشمنوں کے اشاروں پر دہشت گرد اپنی خون آشام کارروائیاں کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مایہ ناز صوبہ بلوچستان میں پے درپے جو دہشت گردی ہو رہی ہے‘ یقینا اس کے ڈانڈے پاکستان کے جس ازلی دشمن سے ملتے ہیں‘ اس کے ثبوت میں بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا نام ہی کافی ہے۔ اس نے اپنے بھارتی آقاﺅں کی بریفنگ میں دی گئی ہدایات کے مطابق بلوچستان میں تخریب کارانہ سرگرمیوں کا جو نیٹ ورک تیار کیا تھا اس کے سنگین نتائج میں بلوچستان میں وقفوں کے بعد خوفناک بم دھماکوں کی صورت میں نکل رہے ہیں۔