ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے
بعثت انبیاءکے دوبنیادی مقاصد تھے۔اول اقرار توحید،دوم اصلاح معاشرہ،بتوں کی پرستش بھی توہین انسانیت ہے۔اشرف المخلوقات خالق کی بجائے مخلوق کے آگے سجدہ کرے تو یہ توہین انسان ہے۔ سورج کی پوجا، آتش کی پوجا،ناگ کی پوجا اور سنگ وخشت کی پوجا تذلیل بشر ہے۔مشرک اسفل السافلین میں سے ہے۔گویا تصور توحید میں بھی شرف و عزت انسان کا پہلو ہے۔توحید و انسانیت لازم و ملزوم ہےں۔اسی لئے قرآن مجید میں مذکور ہوا۔کہ لاالہ الااللہ کہو”تفلحو“اس میں تمہاری ہی فلاح ہے۔بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بت پرستی اور اوہام پرستی ذہنی پستی اور پسماندگی کی دلیل ہے۔بندہ آزاد کسی غیر اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور نہ ہی گردن جھکاتا ہے ۔جب کسی نبی نے بت پرستوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے یہی کہا کہ کیا ہم اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ کر تمہارا مذہب قبول کریں۔سورہ¿ ھود کی آیت نمبر 87 میں حضرت شعیب کی قوم کا ذکر ہے۔جو یہی کہتی ہے کہ کیا ہم اپنے باپ دادا کا مذہب ترک کردیں۔یہاں اس تاریخی حقیقت کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ کے رسولوں کے پیغام کی تائید ہمیشہ غریبوں نے کی، جبکہ سرداروں اور وڈیروں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ دیا اور انبیاءکی تکذیب کی۔ قرآن مجید میں ان کیلئے ”ملائ“(وڈیرے)کا لفظ استعمال ہوا ہے۔حضرت موسٰی کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ارشاد ہوا”فرعون اور اسکے سرداروں کے پاس جب حضرت موسٰی پیغام خداوندی لےکر گئے تو قوم کے سرداروں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی۔ پیغام رسالت قیام نظام عدل ہے۔نبی رہبر و مصلح ہوتا ہے ”ہر قوم کیلئے ہادی بھیجا گیا“اصلاح معاشرہ اور فلاحی ریاست اصل دین ہے۔قوم لوطؑ کو لواطت کی بنیاد پر سزا دی گئی۔افسوس صد افسوس ہم جنس پرستی کو یورپ میں قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا ہے۔قوم شعیب کو ناپ تول میں بے ایمانی اور فساد فی الارض پھیلانے پر سزادی گئی۔اخلاقی برائیوں اور سماجی ناانصافیوں کےخلاف انبیاءنے جدوجہد کی اور اسی کا نام جہاد ہے۔ظالم و مظلوم دو طبقات ہیں۔قرآن مجید نے نظام ظلم کے خاتمے اور نظام عدل کے نفاذ کو بنیاد دین قرار دیا اور ظالمین کی مذمت کی۔سورہ ھود کی آیت نمبر 113 میں حضرت موسٰی کے ذکر کے ساتھ ارشاد ہوا۔”اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کررہے ہیں ورنہ تمہیں آتش دوزخ آچھوئے گی“ ۔پاکستان میں سرداروں ،لغاریوں،مزاریوں،لوالوں، چوہدریوں اور مخدوموں کا راج ہے۔یہی ظالمین ہیں۔ عوام اور انقلاب سے ہمیشہ اہل زور وزر خائف رہے ہیں۔تاریخ عالم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیائے کرام نے ہمیشہ عوام کا ساتھ دیا اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹ گئے۔کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں جس نے بادشاہوں کی حاشیہ برداری یاچاپلوسی کی ہو۔حضرت داو¿د اور حضرت سلیمان کو اللہ نے حکومت و حکمت دی۔حضرت داو¿د کو علم و جسمانی قوت کے ساتھ لحن داود بھی عطا فرمایا لیکن دونوں نے حکم ربی کے تحت عدل و انصاف سے حکمرانی کی۔حضرت یوسفؑ کو زندان سے آزاد کرکے بادشاہ وقت نے خواب کی تعبیر بتانے پر وزیر مقرر کیا۔آپ نے عدل و انصاف سے مخلوق خدا کی خدمت و اعانت کی۔علاوہ ازیں تمام رسل و انبیاءنے سخت تکالیف برداشت کیں۔پیغمبر اسلام نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد عدل و انصاف پر رکھی۔آپ نے فرمایا”جتنی تکالیف میں نے اٹھائی ہیں کسی نبی نے بھی نہیں اٹھائیں“۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر عوام اور غرباءکی حمایت کا مذکور ہے اور ظالمین و فاسقین کی مذمت کی گئی ہے۔اہل زور وزر کو ظالمین و منکرین و کافرین قرار دیا گیا ہے۔سورہ¿ ھود کی آیت نمبر 27 سے لے کر آیت نمبر 31 تک حضرت نوح ؑ اور ان کے عہد کے سرمایہ داروں اور سرداروں کا ذکر ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ کو اہل زرنے ٹھکرایا۔انکی تکذیب کی۔ ارشاد ربانی ہے۔”سوان کی قوم کے کفر کرنیوالے سرداروں اور وڈیروں نے کہا ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم کسی (معزز شخص یعنی اہل زور و زر)کو تمہاری پیروی کرتے نہیں دیکھتے ،سوائے سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں“۔مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل زر اور سردار اپنے آپ کو اہل علم اور اہل فضیلت بھی گردانتے تھے اور حضرت نوحؑ کے پیروکاروںکو غریب اور جاہل کہتے تھے جوان پر ایمان لائے۔ حضرت ابراہیم بھی آمر وقت آزر سے ٹکرا گئے۔حضرت موسٰی ؑ بھی آمر وقت فرعون سے نبرد آزما ہوئے۔حضرت عیسٰی ؑ بھی مذہبی پیشواو¿ں اور حکومتی بددیانت اہل کاروں کے خلاف علم بغاوت لیکر اٹھے۔پیغمبر اسلام نے مکہ کے بت پرست سرداروں کیخلاف علم توحید اور پرچم مساوات بلند کیا۔ ابوجہل، ابولہب اور ابوسفیان نے مخالفت اسلام کی ۔سرداروں کی سرداریاں خطرے میں پڑگئیں۔غریب عوام نے پیغمبر اسلام کی آواز پر لبیک کہا۔حضرت بلالؓ حضرت ابوذر غفاریؓ مقدادیاسرؓ اور سلمان فارسیؓ ایسے جلیل القدر صحابہ ؓ ٹھہرے،مگر چودہ سو سال سے عرب میں ملوکیت ہے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں جاگیرداری ،سرمایہ داری،آمریت و ملائیت ہے۔افسوس صد افسوس نظام ابلیس جاری و ساری ہے۔16مئی 2018 کو واٹس اپ پر ایک ویڈیو دیکھ کر دل پارہ پارہ ہوگی اور مسلمانوں کی بے بسی،بے نصیبی،بے حسی اور بے حمیتی پر بار شرمندگی سے گردن جھک گئی۔ایک پندرہ سولہ برس کا فلسطینی بچہ عربی زبان میں بڑی عاجزی سے پرسوز فریادی گیت پڑھ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دربار میں حاضر ہوکر امن و امان کی بھیک مانگتا ہے پھر وہ روسی صدر، کینیڈین وزیراعظم اور جرمن چانسلر سے فریاد کرتا ہے کہ ہم بھی انسان ہیں۔ہمارا قتل عام بند کرو،ہمیں آزادی دو۔ہماری جانوں کا تحفظ دو لیکن افسوس صد افسوس وہ فلسطینی بچہ کسی مسلمان حاکم سے ملتجی و ملتمس نہیں۔شاید وہ جانتا ہے 56 مسلمان ممالک کی مثال صفر جمع صفر برابر صفر ہے۔مسلمان سائنسی تعلیم میں پسماندہ ہیں۔ملوکیت و ملائیت کا شکار ہیں حلقہ حانقاہیت میں گرفتار ہیں۔فقہی،لسانی ،نسلی ،گروہی ،علاقائی ،مذہبی،ملکی اور قبیلائی تعصبات کے دام ہمرنگ زمیں کے اسیر ہیں۔رجعت پرستی ان کا شیوہ اور انتہا پسندی ان کا طریق ۔مسلمان بدتراز کافرو زندیق،توہمات پر تکیہ،اوہام پرستی مسلک ،تاریخی تنازعات میں مصروف، مباحث،فلسفہ و منطق سے عداوت، دلائل و بہراہین سے کدورت،دانش و بینش سے بغاوت،تنگ نظری اور تنگ دلی سے محبت ان کا دین و ایمان بن چکا ہے۔کشمیر میں ہنود کی ستم کاریاں عروج پر۔فلسطین میں اسرائیل کاظلم قابل نفرین،میانمار میں بدھ مت کے بھکشوو¿ں کی انسان کش حرکات سے انسانیت لرزہ براندم،مگر ستم بالائے ستم، استعمار نے ایران و عراق کو لڑا دیا۔عراق کویت پر حملہ کروادیا۔اب یمن میں مسلمان کا خون آب ارزاں کی طرح مسلمان بہا رہا ہے۔