ڈالر کی اونچی ا±ڑان
پاکستانی عوام کیلئے پہلے ہی مسائل کے انبار کیا کم تھے۔ کبھی سیاسی ا±تار چڑھاو¿ تو کبھی مہنگائی کی مشکلات نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ اب تو لگتا ہے سانس لینے کی بھی ا±جرت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دن رات سوتے جاگتے رزق کی تلاش میں سرگرداں الجھے ہوئے پریشان دماغوں کو سانس لینے کی قیمت ہی تو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ سیاسی ریشہ دوانیوں نے جہاں سیاستدانوں کی نیندیں ا±ڑا رکھی ہیں وہیں عوام میں بھی بے چینی اور انتشار کی سی کیفیت ہے۔ سیاستدان تو خیر اپنے مفادات کے حصول کے لیے پریشان ہیں اور عوام کو مستقبل کے مزید ڈراو¿نے خوابوں کے خوف نے بے چین کیا ہوا ہے۔ ابھی اور بہت سے مسائل حل ہونے باقی تھے کہ یک دم ڈالر کی آسمان کو چھوتی بلند ترین سطح نے بجلی گرا دی ان چند دنوں کے دوران میں ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پچھلی کئی دھائیوں کی سب سے بڑی کمی دیکھنے کو آئی ہے کرنسی ایکسچینج کی منڈیاں کھلتے ہی ڈالر 121 روپے سے بڑھ کر 129 روپے ہوگیا۔ فوری طور پر روپے کی قدر میں مزید 08روپے کی کمی واقع ہوگئی۔ اس کے بدترین اثرات کاروباری طبقات، تاجر اور برآمدات سے تعلق رکھنے والی صنعتوں پر تو پڑیں گے ہی لیکن باقی طبقہ بھی اس کے نقصانات سے لازمی متاثر ہوگا۔ اشیائے خوردونوش سے پٹرولیم مصنوعات تک مزید مہنگائی کا شکار ہوجائیں گی۔ خطرناک ترین صورتحال پاکستانی قرضوں میں یکمشت800ارب روپے کا اضافہ ہے جو نہایت تشویش ناک ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ37ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا حجم90ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ نہایت افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس بدترین صورتحال کا جائزہ لینے یا اس مسئلے سے نکلنے کی بجائے سیاسی داو¿ پیچ استعمال کرتے ہوئے اس کا بوجھ بھی حکومتوں پر ڈالا جارہا ہے۔ اس قرضے کے اضافے کی ایک وجہ سی پیک منصوبہ بھی بتایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے درکار میٹریل، ٹیکنیکل آلات، ہنر یافتہ لیبر اور مینیجر بھی چین سے سے منگوائے جاتے ہیں۔ جن کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان خساروں کی وجہ سے روپے پر بوجھ بڑھنا بھی ناگزیرتھا۔ بجٹ میں جہاں ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقم مختص کی جاتی ہے وہیں پاکستان کے بجٹ کے سب سے بڑا حصہ پرانے قرضوں اور ان پر چڑھتے ہوئے سود کی ادائیگی کیلئے مختص کردیا جاتا ہے۔ حکومتی اخراجات ایسے بھی ہیں جن سے عوام الناس بے خبر ہے اور بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان پر صرف ہوجاتا ہے۔ معشیت کی صورتحال اس وجہ سے خراب ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ درآمدات و برآمدات کے واضح فرق نے معشیت کو بہت پست کردیا ہے۔ آپ کو ایک اور نہایت اہم حقیقت سے روشناس بھی کرواتے چلیں جس کی وجہ سے ڈالر کا ریٹ زیادہ اور روپے کا کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک سے روپے فری میں نہیں چھپوالئے جاتے۔بلکہ ان نوٹوں کو چھپوانے کیلئے سونا گروی رکھوایا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک یہ سونا اپنے پاس رکھتا ہے اور نئے نوٹ جاری کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو کاغذ کے نوٹ تو ایک رسید کی سی حیثیت رکھتے ہیں جو سونا گروی رکھوانے کی صورت میں آپ کو ادا کی جاتی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نوٹ حاصل کرنے کیلئے سونا جمع نہیں کروایا گیا۔ بلکہ ادھار پر نوٹ چھپوائے گئے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے بھاری شرائط پر قرضہ حاصل کیا گیا اور یوں روپے کی ویلیو کم ہوتی چلی گئی۔ ڈالر اور روپے کے توازن کو برقرار رکھنے کا انحصار تین چیزوں پر ہوتا ہے۔ اول برآمدات و درآمدات میں فرق۔ دوئم بیرون ملک پاکستانیوں کو بھیجا گیا روپیہ اور نمبر تین بیرونی انویسٹمنٹ کی۔ یہ بات تو اب ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں گی تو یقیناًاپنے ملک کا زر مبادلہ بڑھے گا۔ تجارت زیادہ تر ڈالرز کی صورت میں ہوتی ہے۔ظاہر ہے اس طرح ڈالر آپ کے ملک میں آئے گا۔ برآمدات زیادہ ہونے کی صورت میں ڈالر کی قیمت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن صورت حال الٹ ہونے کی صورت میں یقینی طور پر نتائج بھی ا±لٹ ہی ہوں گے۔ بیرون ملک کمانے والے اپنے گھر والوں کو پاو¿نڈز یا ڈالرز کی صورت میں رقم بھیجتے ہیں یہ رقم جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی ڈالر کی قیمت میں کمی ہوسکتی ہے۔
ملک کی ترقی وخوشحالی کا انحصار بیرونی انویسمنٹ پر بھی ہے۔ ملک کی رپیوٹیشن جتنی اچھی ہوگی۔ بیرون ممالک اتنے ہی تجارتی منصوبہ جات آپ کے ملک میں شروع کرتے ہیں یہ منصوبے جتنے زیادہ ہوں گے ڈالر زیادہ آئیں گے۔ اور ڈالر کی قیمت میں کمی ہوگی۔
ان تمام مسائل سے عوام براہ راست متاثر ہورہی ہے جبکہ مزید ٹیکس بڑھانے کے امکانات بھی موجود ہیں ڈیم بنانے کے لئے ایوانوں میں بیٹھے بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے کچھ کروڑ بھی ضرور حاصل کریں۔ غریب عوام مزید بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کچھ حل موجودہ صورت حال کا بھی ضرور نکالئے یہ بگڑتی ہوئی صورتحال ملکی پسماندگی کو خطرناک حد تک لے کر جاسکتی ہے۔