مولوی نور دین
یادش بخیر ہمارے محلے میں مولوی نوردین ہوا کرتے تھے ۔ حافظ امین چغتائی کے گھر کے سامنے ۔ ایک طویل عرصہ ہوا کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔علم وفضل ،ایثار وقربانی،جودوسخا،درویشی وقناعت اور محنت کی عظمت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔سادہ لباس،سادہ غذا،سادہ سارہن سہن انکا طرز حیات اور دیسی صابن سازی کا سادہ سا گھریلو کاروبارغم روزگار کا مداوا تھا۔بلا شبہ اپنے دور کے ولی تھے۔گوجرانوالہ کے معروف صحافی حافظ خلیل الرحمان ضیاءاور مولوی وہاب ان کے صاحبزادے تھے ،پانچویں جماعت پاس کرنے تک ناظرہ قرآن حکیم کی تعلیم میں نے اپنی خالہ مرحومہ سے حاصل کی تو ابا جی مجھے مولوی نور دین کے ہاں لے گئے کہ بیٹے کو قرآن حفظ کرادیں۔ یہاں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ والدین کو بچوں کی ناظرہ تعلیم کے لیے ہمیشہ خواتین کا انتخاب کرنا چاہئے ، اُن کی دی ہوئی تعلیم دل میں اترتی ہے ۔ ذکر ہورہا تھا مولوی نور دین کا انہوںنے حفظ کی بجائے ترجمہ سیکھنے پر قدرے اصرار کیا تو اگلے دن سے ہر روز مغرب کی نماز کے بعد مسجد ملک لال خاں میں ان سے ترجمہ قرآن پڑھنا شروع کردیا۔تب ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سکول سے فارغ ہو کر بچے ناظرہ ،ترجمہ یاحفظ میںسے کوئی ایک کی تعلیم ضرور حاصل کریں۔بلکہ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں تو علیٰ الصبح کسی نہ کسی اکھاڑے جانا بھی ضروری ہوتا تھا۔ترجمہ سیکھنا شروع کیا تو جیسے کائنات کے سارے اسرار رموز اپنے جلوے دکھانے لگے ہوں۔مگر ہمارا ذہنی افق تو اتنا ہی تھا جتنا چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا ہوتا ہے ۔بس جو کچھ بھی سمجھ میں آتا مولوی صاحب کی وجہ سے خوب آتا۔ایک بات البتہ یہ ضرور تھی کہ میں سکول میں اپنے ہم جماعتوں کی نسبت ذرا زیادہ کچھ جاننے لگا۔اپنے بڑے بھائی طارق کھوکھراور ڈاکٹر آفتاب کے علاوہ مقامی جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عبدالقیوم اس مسجد میں مےرے ہم مکتب تھے۔مغرب کی نماز کے بعد ہم سب مل کر اپنے"کلاس روم"کیلئے مسجد کے صحن میں الگ سے صفیں بناتے ،لکڑی کے چھوٹے ڈیسک اور اپنے استاد مولوی نور دین صاحب کیلئے ایک زمینی ڈائس آراستہ کرکے زمین پر بیٹھ کرروزانہ ایک گھنٹہ ترجمہ پڑھتے ۔مولوی صاحب ولئی دوراں مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ تھے جنہیں گوجرانوالہ میں لوگوں قرآن حکیم کاترجمہ پڑھانے کافریضہ سونپا گیا تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت لاہوریؒ کاحکم ہے کہ شہر میں قرآن کا ترجمہ عام کروا ور باالخصوص خواتین کو اس طرف راغب کرو۔عورتوں میں فہم قرآن عام ہو گا تو اس کامثبت اثران کی اولاد تک جائے گا اور یوں لوگ اچھے اورکار آمد مسلمان بنیں گے ۔اور جہاں اچھے لوگ زیادہ ہوں وہاں اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔خواتین کو ترجمہ کی تعلیم دینے کیلئے انہوں نے باقاعدہ طورپر کوئی مدرسہ وغیرہ نہیں بنوایا ہوا تھا۔فجر کی نماز پڑھ کر ہراس دروازے پر پہنچ جاتے جہاں کو ئی خاتون ان کی طالبہ ہوتی ۔اس کے بعد دوسرا پھر تیسرا حتی کہ سارے محلے میں خواتین کو پڑھا کرواپس آتے تو اپنے کاروبار یعنی دیسی صابن بنانے میں مصروف ہوجاتے ۔پھر اس کو ٹکیہ کی شکل دیتے اور خاکی کاغذ میں پیک کرکے چھوٹی موٹی کریانے کے دکانوں تک سپلائی کرتے ۔میں نے زندگی بھر انہیں سائیکل یا کسی بھی دیگر سواری پر کہیں جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔بڑھاپے کے باوجود ہمہ وقت پیدل چلتے چاہے کسی کو پڑھانے جارہے ہوں ،نماز پڑھنے جارہے ہوںیا صابن سپلائی کرنے۔دل ودماغ میں قرآن اور غم روزگار کے تقاضوں سے نمٹنے کیلئے کندھوں پر صابن کا بوجھ ہوتا۔اب تو ایسے درویشوں اور اللہ کے ولیوں کو دیکھے عرصہ بیت گیا۔معاشرے نے جس رفتارسے ترقی کی، افسوس کہ اسی رفتار سے ایسے لوگ ہم میں سے اٹھتے گئے ۔اگر ڈھونڈنے نکلیںتو ان ساکوئی نہیں ملتا۔کچھ استثنیٰ کے ساتھ عام سے قصبے سے لیکر قومی افق تک سبھی علماء"تعدادمیں اضافہ" کے زمرہ میں آتے اور مجھے مختار مسعود یادآگئے کہ" مردم شماری کی جائے تو بے شمار،مردم شناسی کی جائے تو نایاب "۔ہمارے شہر گوجرانوالہ میں تمام مکاتب فکر کے بے مثل اور قومی سطح کے راہنما موجود تھے جن میں اہلحدیث مکتبہ فکر کے مولوی اسماعیل بریلوی مکتب فکر کے صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا ابو داﺅد محمد صادق ،شیعہ مکتب فکر کے مفتی جعفرحسین صاحب اور دیو بندی مکتب کے صوفی عبدالحمید سواتی اور علامہ زاہد الراشدی کے والد گرامی مولانا سرفرازخاں صفدر شامل تھے۔اختلاف تو ان کے درمیان بھی ہوتا تھا مگر سراسر علمی اور فکری اختلاف ، شاگردوں کے ذریعے "بم بازی"نہیںہوتی تھی۔باہمی عزت واحترام اور گاہے ملنا جلنا بھی رہتا۔مولوی نوردین نے زندگی بھر سیاست میں حصہ نہیں لیا۔1970ءمیں جب مذہبی جماعتوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان "کفرواسلام " کامعرکہ بپا کیا گیا تو بھی وہ اس سے لاتعلق رہے ۔بوڑھی ہڈیوںکابوجھ اٹھائے گھر گھر جاکر خواتین کو ترجمہ ءقرآن کی تعلیم دینا۔رزق حلال کی خاطر محنت کرنا اور شام کو پھر لال خاں مسجد میں ہم بیس پچیس طلباءکو ترجمہ پڑھانا ،یہ سب کچھ ایسے تھا کہ دیگر کسی کام کی فرصت ہی انہیں نہ ملتی ۔مولوی صاحب لفظی ترجمہ پڑھاتے تھے،ایک ایک لفظ اور ایک ایک زیر زبر پیش کے معنی سمجھاتے ،پھر ہم سے سنتے اور آخر میں جو کچھ پڑھا ہوتا اس کا خلاصہ آسان زبان میں سمجھاتے ،آخر شیخ التفسیرمولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ تھے۔جس جمعرات کو مجلس ذکر کیلئے مسجد شیرانوالہ گیٹ لاہور جانا ہوتا،بس اسی دن ہمیں چھٹی ملتی۔ہم سب طلباءنے حضرت لاہوریؒ کو نہیں دیکھاتھا ان کے بیٹے مولانا عبیداللہ انورؒ کو ولی ابن ولی کہا جاتا تھا اور یہ میری خوش قسمتی بلکہ شائد زندگی بھر کا ایک اثاثہ ہوکہ مجھے ان کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل میں ایک ہی بیرک میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔مولانا عبید اللہ انور توخیر ولی تھے ہی ،میں ہر اس سیاسی کارکن کو بھی ولی اللہ سے کم نہیں سمجھتا جس نے پاکستان میں آئین ، عوام کی حکمرانی، لوگوں کے حقوق،ووٹ کی حرمت یا ختم نبوت کیلئے زنداں کے درودیوار کو گلے لگایا ہو۔میرے نزدیک وہ تمام سیاسی کارکن انسانیت کے افضل ترین مقام پر ہیں جنہوں نے خود سوزیاں کیں،کوڑے کھائے،شاہی قلعے کے عقوبت خانے اور ملک بھر کی جیلوں کو اپنی جوانیوں سے آباد کیا۔ جن کے روز گار چھن گئے ،اولاد اچھی تعلیم سے محروم رہ گئی ،بچوں کیلئے اچھے رشتے نہ آسکے ،دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھے ہوگئے اور بالآخر قبروںکے کتبے بن کررہ گئے۔محض اس لئے کہ انہوں نے پاکستان میں ہر انسان کو برابر کے حقوق دلانے کے لیے جدوجہد کی جنہوں نے دولت کی بے رحمانہ غیر مساوی تقسیم کے جہنم کی آگ کو بجھانا چاہا۔جنہوں نے پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے لئے مفت اور معیاری تعلیم ،ہر بے گھر کے لئے گھر ،ہر خالی پیٹ کیلئے عزت کی روٹی،ہر ننگے بدن کیلئے لباس،ہر بیمار اور مجبور کیلئے مفت علاج اور ہر انسان کی عزت وتقدس کی خاطر جانیں تک دے دیں۔ سیاست کے بازار سے لے کر معیشت کی منڈی تک ،مذہب کی پکار سے لے کر میڈیا کی یلغار تک ،شعروادب کے حسن سے لے کر خطابت کے جوہر تک جابجا جنہوں نے بڑے لوگ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر نہ صرف ناکام رہے بلکہ اپنا توشہ بھی لٹا بیٹھے۔ اب اس معاشرے میں مولوی نوردین کامطلب ہے ایک نادار،محنتی، صرف دووقت کی روٹی کھانے والا "اچھے لباس "اور"اچھی صحبت"سے محروم ایک درماندہ نصیب شخص اور"عزت دار" حرام کی کمائی جمع کرنے والا،ٹیکس چور،، گیس چور ،سود خور،قومی دولت لوٹنے والامہافنکار،انتخابات کے وقت جس کی چوتھی خفیہ بیوی بھی منظر عام پر آجائے۔بات کتنے پاکیزہ آدمی سے شروع ہوئی اور کتنے عجیب لوگوں پر آکر ختم ہوئی ۔لگ بھگ ربع صدی قبل مولوی نوردین ملک عدم کے راہی ہوئے ۔ شہر بھر کے لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔۔ ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن۔۔۔۔۔۔اب شہر میں تیرے کوئی ہم سابھی کہاں ہے۔