نواز شریف کی سزا
13جولائی لاہور کی تاریخ کا اہم دن ہے۔ اس روز اہلیان لاہور دیوانہ وار اپنے قائد نواز شریف کی حمایت میں نکل آئے ۔ مال روڈ پر جشن کا سماں تھا۔ بھاری تعداد میں عوام پر جوش نعروں سے مسلم لیگ ن کے حق میں اپنی تائید اور سپورٹ کا اظہار کر رہے تھے ۔ مسلم لیگ ن کی صف اول کی قیادت بھی موجود تھی۔ جناب نواز شریف اپنی سزا پر لاہور عملدر آمد کے لئے تشریف لا رہے تھے ، گرفتاری دینے کے لئے .... مجمع کا مقصد نواز شریف اور مریم نواز رکی رہائی نہیں تھا نہ وہ انہیں چھرانے کے لئے نکلے تھے مگر رکاوٹوں کے ذریعے عوام کے راستے بند کئے گئے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ عوام کو تاثر دیا گیا کہ پوری نگران حکومت انہیں ائیر پورٹ جانے سے روکنے کے لئے صف آرا پر ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ جو چینلز ان دنوں عمران خان کے چھینکنے کے انداز کو دکھاتے ہیں انہیں ہدایت دی گئی کہ لاہور کے عوام کا تاریخی جلوس بالکل نہ دکھایا جائے ۔ نواز شریف آئے تو خوفزدہ حلقوں نے ائیر پورٹ پر اترنے سے پہلے انہیں اور مریم نواز کو گرفتار کر لیا ۔ باپ کے روبرو بیٹی کو گرفتار کرکے سیاہ تاریخ رقم کی گئی اور بیٹی کے سامنے باپ کو گرفتاری کیا گیا۔ اس میں خاص بات کیا تھی؟ وہ تو پہلے ہی گرفتاری دینے آئے تھے ۔ یہ مناسب طرز عمل نہیں تھا
تین بار پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے والا وزیراعظم عزت و احترام کی بجائے نارروا سلوک دیکھ رہا تھا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز اس سلوک کی ہی شاید امید کر رہے تھے اس لئے انہوں نے سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا۔ انہوں نے عوام سے ملنے کی آرزو کی مگر کوئی ناخوشگوار تاثر نہیں دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ گھر کے راستے میں اب کوئی کہکشانی نہیں ہے۔ ایسا تاریخ میں بار بار ہوتا ہے مگر حکمران سبق سبق لینے سے انکاری ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز نے وقار سے گرفتاری دی ۔ حکمرانوں کی قید میں خاموشی سے چلے گئے ۔ کوئی قانون کی پاسداری کر رہا تھا اور کوئی خلاف ورزی ۔ کیا عوام کے رہنماﺅں سے اور بلند منصب پانے والوں سے یہی سلوک کیا جاتا ہے۔
جناب نواز شریف کو احتساب عدالت بشیر نے سزا دی ہے۔ جج نے لکھا کہ اس حوالوں سے نیب کوئی Evidenceپیش نہ کر سکی۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ایک برس سے ایک وکیل جو خود کو نیب قوانین کا ماہر گردانتے ہیں ۔ چینلوں پر سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر پیش ہو رہے ہیں۔ موصوف سخت نفرت اور تعصب کے اظہار میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اللہ جانے چینلوں کا معیار کیا ہے۔ چینل کن کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ اچھی صورتحال نہیں ہے کہ خلائی مخلوق کا نام دے کر ایک معززمحترم اور ملک کے اہم ترین ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہم دل کی گہرائیوں سے اس صورتحال پر صدمے اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ اداروں کے ذہین ، دانشمند اور محب وطن قائدین کا بھی کام کیا ہے کہ وہ اپنے اداروں کے وقار اور احترام کے لئے سرگرم ہوں۔ محبت کے اپنے ضابطے ہوتے ہیں ۔ نواز شریف کو سزا احتساب کے قانون کی شق 9(5)میں ہوئی ہے۔ احتساب عدالت نے فرض کر لیا کہ کیونکہ نواز شریف کے بچے ان کے زیر کفالت رہے ہیں ۔ اس بناءپر نواز شریف اور بچوں کو بشمول مریم نواز سزا سنائی جا رہی ہے۔ جناب جسٹس افتخار چودھری سے چینل 24کی عاصمہ شہزادی نے پوچھا کہ کیا جج نے بے انصافی کی ہے انہوں نے بلا جھجک کہا ہاں جج نے انصاف نہیں کیا۔ہم تو قانون نہیں جانتے ، احتساب کے حق میں گیت گانے والے نیب کے وکیل سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چودھری کو بھی قانون پڑھائیں۔ میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو!جناب شہباز شریف نے شکوہ کیا ہے کہ ہم پر نیب کے ذریعے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن اور نگران وزیراعظم خاموش ہیں ۔ نواز شریف اور مریم نواز رکو مجبور کیا گیا کہ وہ احتساب عدالت کی روزانہ کارروائیوں میں ایک سو سے زیادہ تاریخوں پر پیش ہوتے مگر منگل 17ءجولائی کو نواز شریف کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا .... اس صورتحال پر مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے تنقید کی ہے ۔ آج کی دنیا گلوبل ولیج ہے دنیا دیکھ رہی ہے ہم کیا کررہے ہیں !بلاول بھٹو کی صورت میں سیاست کے کھنڈرات سے ایک جوان سال قیادت طلوع ہو رہی ہے۔ آصف زرداری کے بیانات کے برعکس بلاول بھٹو نے بالغ نظری سے بھرپور بیانات دئیے ہیں۔ بلاول کو عمران خان کی طرح ہر قیمت پر اقتدار کی عجلت نہیں ہے۔ ان کے رویے میں ٹھہراﺅ ہے۔ وہ سیاست کے موجودہ ماحول کے باوجود نہ جذباتی ہیں نہ غیر معمولی جوش کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کے چلن سے ہٹ کر عجیب بات کی ” میں ، میاں صاحب کی سزا سے فائدہ نہیں اٹھاﺅں گا “ بلاول بھٹو سیاست کے تلخ اور سیاہ بادلوں کے موسم میں بارش کا خوشگوار قطرہ ہیں ۔ شاید وہ اس الیکشن میں کوئی بڑا کردار ادا نہ کر سکیں۔ مگر اگلے الیکشن کے لئے وہ بہت متحرک ، فعال اور پر کشش رہنما ہوں گے۔ وقت ان کا منتظر ہے اور وہ مناسب وقت کے منتظر ہیں ۔بلاول بھٹو نے بھی الیکشن میں رکاوٹوں کو ”لمحہ فکریہ “ قرار دیا ہے انہوں نے فکر انگیز بات کی کہ سیاسی قائدین بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں ۔ بلاول بھٹو نے متانت سے ملک کے سیاسی حلقوں پر پختہ سوچ کے لیڈر کے طور پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں ۔ جیکب آباد کے بڑے جلسے میں عمران خان نے آصف زرداری پر سخت تنقید کی ہے۔ یوں الیکشن کے حوالے سے سندھ ، بلوچستان اور KPKمیں الگ رد عمل فروغ پا رہا ہے۔ اختر مینگل نے کہا ہے جنازے اٹھ رہے ہیں جلسے نہیں کر سکتے۔ مولانا فضل الرحمن نے عجیب انکشاف کیا ہے۔ pti کی حکومت آئی تو ملک میں اسلام نہیں رہے گا۔ اسفند یار ولی کا لہجہ تلخ ہوگیا پاکستان میں الیکشن کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلیں سماعت کے لئے منظور کر لی ہیں ۔ الیکشن 25جولائی کو ہیں اور قیدیوں کی سزا معطل کی درخواست پر 30جولائی کی تاریخ دی گئی ہے۔ یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان دنوں پاکستان پر عدالت کی حکومت اور عملداری قائم ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ فعال اور متحرک ہیں ۔ یہی صورتحال دیگر ججوں کی ہے جو نئی عدالتی تاریخ جرات سے رقم کر رہے ہیں ۔ الیکشن کمشن کے سربراہ ریٹائرڈ جج صاحب ہیں۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نگران وزیراعظم پاکستان ہیں نیب کے سربراہ بھی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں ۔ یوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی قائم ہے۔ قوم عدالتی حکمرانی کے ماحول سے خوشگوار انداز میں فیضیاب ہو رہی ہے۔ نواز شریف کی سزا کے بعد الیکشن کے نتائج اہمیت کے حامل ہوں گے ۔ بعض جماعتیں ابھی سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں ۔ ضروری ہے کہ الیکشن سے پہلے نگران وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر ، چیئرمین نیب کے حکمران ، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقات فرمائیں ۔ Communicationکو بہتر بنائیں۔ شکائتوں کی فضاءمیں الیکشن مفید ثابت نہیں ہوں گے ۔ ہم 1970 کے پہلے عام الیکشن اور 1977کے الیکشن کے بعد ملک کے حالات دیکھ چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پھر ہمیں آزمائش میں نہ ڈالے۔ حکمرانوں کی معمولی غلطی ملک میں بحران کا سبب بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔