خالی نعرے‘ جھوٹے وعدے
پیارے ووٹرز مودبانہ گزارش ہے کہ ووٹ کیلئے ایک کروڑ ملازمت 50لاکھ مکان، پانی بجلی کے مفت بل ، آٹے کا توڑا بریانی کی پلیٹ ، گٹر کی پختہ نالی متعدد لالچ کے سبز باغ، دوستی ، برادریوغیرہ اور 62,63کا جھنجھٹ ہے کیونکہ سسٹم میں اس دریا دلی کی گنجائش بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے بدیںوجہ غربت ختم نہیں ہو سکتی کیا چاروں صوبے ہر صوبے کے 32محکمے ٹوٹل(128)محکموں کابجٹ بند کر دیا جائے گا۔خدا کا شکر کریں! کہ پاکستان میں بھوک سے کوئی نہیں مرا بیسار خوری سے بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک سے ہسپتال داخل ہو کر ضرور مر تے ہیں ۔ بھوکا ہسپتال داخل نہیں ہوتا لیکن اب عنقریب بغیرپانی ضرور مریں گے ۔ چنانچہ محترم ووٹرز! ہوش کے ناخن لیں اور ذرا ملکی مجوزہ ڈیمزکے فیصلہ پر غور کریں ! جیسا کہ بین الاقوامی آبی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق دیا میر دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل خطہ ہے 3شدید زلزلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے اور اسکے تعمیری اخراجات 14بلین ڈالر خرچ ہوں گے ۔ اسکے ساتھ بھاشا ڈیم کی تکمیل کیلئے پندرہ سال کا عرصہ الگ درکار ہے جبکہ کوئی عالمی ادارہ (مالیاتی) اس منصوبے کیلئے فنڈز دینے کیلئے تیار نہیں جو پاکستان کو خود اپنے طور پر ہی خرچ کرنا ہوگا جو ناممکن ہونے کے باوجود بہت زیادہ درکار خرچہ اور عرصہ اور کمترین فائدہ بے وقوفی کے مترادف ہوگا اور دشمن کیلئے بہت آسان ہدف بھی ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس کالاباغ ڈیم دو سال میں مکمل ہو جائے گا کیونکہ اس کابیشتر کام پہلے ہی تکمیل پذیر ہے لہذا قلیل ترین مدت اور کم ترین لاگت بغیر خطرہ کے تمام دوسرے مجوزہ ڈیمز سے بڑا اور مفید ترین ڈیم تیار ہو جائے گا۔جس کی آمدنی سے دیگر ڈیمز بھی تعمیر ہو سکیں گے چنانچہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس ترجیح کی بحث عین ضروری ہے کیونکہ دیا میر بھاشا او رمہمند سے پہلے صرف اور صرف کالاباغ ہی ضروری ہے ، وگرنہ! (محمد اسحاق لاہور)