مودی کےخلاف تحریک عدم اعتماد !!
گذشتہ روز بھارتی پارلیمانی سیاست میں اچانک ایک بہت بڑی پیش رفت ہوئی ‘ جب مودی حکومت کے خلاف لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ تحریک آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو کی جانب سے پیش کی گئی، موصوف ”تیلگو دیشم پارٹی “کے سربراہ ہیں اور جنوبی بھارت کے اس انتہائی اہم صوبے میں طویل عرصے سے برسر اقتدار ہیں۔ کانگرس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی مذکورہ تحریک کے حق میں کھل کر حمایت کی گئی، مبصرین کے مطابق اگرچہ مودی کے خلاف پیش ہونے والی اس تحریک میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ فی الحال مودی کو واضح اکثریت حاصل ہے لہذا فوری طور پر بی جے پی کے خلاف یہ تحریک پاس نہیں ہو سکتی۔ مگر اس کے سیاسی اثرات آنے والے چند مہینوں میںبی جے پی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت کے حامل ہیں کیونکہ صرف چند ماہ بعد چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں عام صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں، علاوہ ازیں مار چ اپریل9 201 میں موجودہ لوک سبھا کی بھی مدت ہو رہی ہے۔
ایسے میں بی جے پی کےلئے 2014 جیسی کارکردگی دہرانا غالباً خاصا مشکل ہے بلکہ اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ کانگرس راہل اور سونیا گاندھی کی قیادت میں ، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی ترنمول کانگرس،کیرالہ میں برسراقتدار کیمونسٹ بی جے پی کو بڑی پریشانی سے دوچار کر سکتے ہیں ۔ دوسری طرف بھارتی سیاست کی راہداریوں میں یہ سرگوشیاں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں کہ مودی ،سشما سوراج کو وزارت خارجہ سے فارغ کرنے کا من بنا چکے ہیں اور اس ضمن میں ”خرابیِ صحت “ کو بنیاد بنا کر موجودہ بھارتی وزیرخارجہ کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ سے محروم کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی شعلہ بیان مرکزی وزیربرائے آبی وسائل اوما بھارتی، وزیرزراعت رادھا موہن سنگھ، سمرتی ایرانی، موجودہ لوک سبھا سپیکر سمترا مہاجن کے چل چلاﺅ کی خبریں ہیںاور ان سے خود کہلوایا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر انتخابات سے پیچھے ہٹ جائیں گے، کیونکہ ان کی کارکردگی مودی اور آر ایس ایس کے نزدیک قابل اطمینان نہیں رہی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے بانی رہنماﺅں سابق بی جے پی صدر مرلی منوہر جوشی، ایل کے ایڈوانی، کریا منڈا، شانتا کمار اور ریٹائرڈ میجر جنرل بی سی کھنڈوری کو بھی 2019 میں ٹکٹ سے محروم کرنے کی مستند اطلاعات ہیں اور اس ضمن میں ان کی ضعیف العمری کو بنیاد بنایا جائے گا، جبکہ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ چند ہفتے قبل ملائشیا میں مہاتیر محمد بیانوے سال کی عمر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف محبوبہ مفتی کی جگہ فاروق عبداللہ کو بھی کٹھ پتلی کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں برسراقتدار لایا جا سکتا ہے۔ کانگرس کے سینئر لیڈر اور سابق نائب وزیرخارجہ ”ششی تھرور“ کی اس بات پر بھارتی سیاست گرمائی ہوئی ہے کیونکہ موصوف واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں اگلی بار بھی آر آر ایس اور بی جے پی کی حکومت آنے کی صورت میں مودی بھارت کو مذہبی بنیادوں پر مزید تقسیم کر کے ”ہندو مسلمان دیش“ بنا کر دم لیں گے،اور یہ ایسا عمل ہو گا جس سے پورا خطہ ”غیر مستحکم“ ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارت میں آر ایس ایس تاریخ کو گویا دوبارہ مرتب کر رہی ہے، اور اس میں مسلمان فاتحین کو غاصب اور ظالم ترین حکمران کے روپ میں پیش کر رہے ہیں، یہاں تک کہ اکبر جیسی ”روشن خیال “سے بھی کچھ زیادہ شخصیت کو بھی توڑ پھوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کبھی علی گڑھ یونیورسٹی میں محض قائداعظم کے نام کو لے کر متشدد مظاہرے کیے جا رہے ہیں تو کبھی تاج محل میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ ایسے میں سنجیدہ حلقوں نے غالباً صحیح کہا ہے کہ اس قسم کی سوچ کے حامل طبقات کے حاوی ہونے کی صورت میں جو نتائج نکل رہے ہیں اور نکل سکتے ہیں وہ بعید از قیاس نہیں۔
دوسری جانب دہلی سرکار نے پاکستان کی بابت الزام تراشی کا جو لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، کلبھوشن یادو اور اس جیسے دیگر دہشتگردوں کے ذریعے را نے وطن عزیز میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے دہشتگردی کا جال بچھا رکھا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان نے دہشت گردکلبھوشن کیس میں اپنا جواب عالمی عدالت انصاف میں جمع کروا دیا ہے ۔یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے دوسرا جواب الجواب دفترخارجہ میں تعینات ڈاکٹر فاریحہ بگٹی نے جمع کرایا۔پاکستانی جواب اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم نے مرتب کیا جو 400سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔پاکستان کی جانب سے بھارتی سوالات کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے اور پاکستان نے بھارت کے تمام اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے بھارتی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہونا چاہیے کہ دو روز قبل اسرائیلی پارلیمنٹ نے شرانگیزی کی تمام حدود پار کرتے اسرائیل کو ”روحانی دارالحکومت“ قرار دیا، اس کے جو منطقی نتائج برآمد ہوں گے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔