غلط اقدامات نہیں ہونے چاہئیں
نیب عدالت نے میاں نوازشریف‘ مریم نواز اور صفدرکوسزائیں سنائیں تو کہا گیا کہ اب میاں نوازشریف اور مریم بی بی پاکستان نہیں آئیں گے لیکن قوم نے دیکھا کہ وہ تمام تر حالات اور خدشات کے باوجود نہ صرف واپس آئے بلکہ خود کو قانون کے سامنے پیش کردیا۔ میاں نوازشریف کے استقبال کے روز پورے لاہور کے داخلی خارجی راستے کنٹینر لگاکر بند کئے گئے تھے اور ایئرپورٹ جانے والوں پر شیلنگ اور گرفتاریاں کرکے پرامن استقبال کرنیوالوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب میاں نوازشریف حکومت میں تھے تو انہوں نے اپوزیشن کو ان کا مکمل جمہوری حق دیا اور پرامن رہ کر ہر طرح کے احتجاج کی آزادی دی گئی۔ ن لیگ کے رہنما اور کارکنان مکمل طور پر پرامن تھے تو عبوری حکومت اور نیب کی جانب سے ایسا رویہ درست نہیں تھا۔
میاں نوازشریف 3 مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں اور اب بھی ان کی پارٹی انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں فوری طور پر میاں نوازشریف‘ مریم بی بی اور کیپٹن صفدر کو الیکشن مہم چلانے کے لئے 30جولائی تک ضمانت پر رہا کردیتا تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم آزادی سے چلاسکیں اور انتخابات کے مکمل نتائج آنے کے بعد یکم اگست کو انہیں سزاکیلئے بھی سہالہ ریسٹ ہاﺅس میں ان کے شایان شان حراست میں رکھنے کے احکامات دیتا۔ یہاں ایک تو کیا سینکڑوں قتل کے الزامات میں نامزد افراد ضمانتوں پر دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میاں نوازشریف پر مالی معاملات کا کیس تھااور اس میں بھی تفصیلی فیصلے میں باقاعدہ لکھا ہے کہ میاں نوازشریف پر استغاثہ کرپشن ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے البتہ انہیں آمدن سے زائد اثاثوں کے جرم میں سزادی گئی ہے۔اب یہ کہاگیا کہ ان کا دیگر 2 نیب کیسز کا ٹرائل جیل میں ہی ہوگا۔ کیا وہ دہشت گرد ہیں؟ ان کا بے شک مرضی جتنا ٹرائل کریں مگر ایسا شفاف طریقہ ہو کہ خود ن لیگ کی ساری لیڈرشپ تسلیم کرے کہ واقعی انصاف ہوا ہے۔ پنجاب کے نگران صوبائی وزیراطلاعات میاں نوازشریف کی قید اور دیگر معاملات پر بات نہ کریں بلکہ میرٹ پر طریقہ یہی درست ہے کہ وفاقی سیکریٹری اطلاعات ہی اس معاملے پر بریفنگ دیں۔
یہاں پوری قوم نہیں دیکھ رہی کہ انتخابی مہم میں ایک پارٹی کو روزانہ 3-4 جلسے کرنے میں نہ تو کوئی سیکورٹی رسک ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پابندی ہے لیکن مخالف سب سے بڑی جماعت اور تین بار اقتدارمیں رہنے والی سیاسی پارٹی کی قیادت کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں بھی الیکشن مہم کے لئے ضمانت نہیں دی جارہی۔ واضح رہے کہ نیب کے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوتی رہی لیکن جب ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے تو اس کی سماعت کئی دنوں بعد مقررکی گئی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہی ایک کیس میں پیپلزپارٹی کی قیادت کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر انہیں سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن چیف جسٹس نے حالات بھانپ کر بالکل درست فیصلہ کیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوا دیا۔
میاں نوازشریف ہوں ‘ شہباز شریف‘ زرداری یا کوئی اور سیاسی شخصیت ہو۔ ہر ایک نے اپنے کئے کا خودحساب دینا ہے اور اداروں کا کام ہے کہ ان پر عائد الزامات ثابت کریں لیکن الزامات ثابت کئے بغیر کسی کو انتخابی مہم سے آ¶ٹ کردینا افسوسناک ہے۔ سب سے درست طریقہ تو یہی ہے کہ انتخابی مہم میں تمام جماعتوں اور لیڈروں کو اپنی مہم چلانے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور انتخابات میں ہر بکس کے ساتھ ایک فوجی تعینات ہو اور انتخابات تک نیب اور ادارے ہر طرح کی کارروائی روک دیں اور پھر جب نتائج آئیں گے تو پوری قوم کہے گی کہ واقعی تمام پارٹیوں کو یکساں مواقع بھی فراہم کئے گئے اور دھاندلی بھی تمام ممکنہ حدتک روکی گئی ہے اسی لئے نتائج کو ہر ایک تسلیم کرتا۔موجودہ رویئے کو کسی صورت درست نہیں کہاجاسکتا۔
اگرموجودہ طرزعمل کرنا ہے تو سب سے بہترتو پھریہ ہے کہ سعودی عرب کی طرح کرپشن کرنیوالوں کے خلاف پہلے مکمل تحقیقات کرکے ثبوت جمع کرلئے جائیں اور پھر کرپٹ لوگوں کو ایک ہی رات میں پکڑلیا جائے اور اس وقت تک ان کی رہائی کسی صورت ممکن نہ ہو جب تک لوٹی ہوئی دولت واپس نہ کردیں۔ آپ طریقہ پاکستانی اپناتے ہیں تو انصاف ہوتا نظر آنا ضروری ہے اور انصاف میں ہی ملک کا فائدہ ہے۔
مبینہ طور پر جس طرح انہیں قیدیوں کی وردی میں قید رکھنے اور چند سہولیات دیکر عام سیل میں رکھنے کی خبریں آرہی ہیں اس سے پوری قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ ناانصافی ہے اور میاں نوازشریف کے شایان شان نہیں۔یہ طریقہ کار اختیار کرکے اگر کسی کو تسکین پہنچ رہی ہے تو بے شک وہ اپنی ذاتی تسکین کرلیں لیکن یہ انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ مریم بی بی نے عام قیدیوںکے ساتھ سزا کاٹنے کا کہہ کر یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ واقعی لیڈر ہیں اور وہ قیدوبند کی صعوبتوں سے گھبرانے والی نہیں۔ پورے میڈیا نے دکھایا کہ جب وہ لاہور ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد طیارے میں اپنی نشست پر براجمان تھیں تو ان کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ بھی تھی اور وہ زیرلب کوئی وردکررہی تھیں۔ ان کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ اب جیل میں عام قیدیوں کی طرح سزا کاٹنے کا کہہ کر انہوں نے مزید غلط رویوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
کیا پانامہ لیکس میں صرف شریف فیملی کا ذکرتھا؟ پانامہ لیکس میں شامل باقی افراد اب تک کیوں آزاد ہیں؟ بیرون ملک اثاثے رکھنے والوں کا ٹرائل کب ہوگا؟ ایک مخصوص فیلی کو پے درپے کارروائی کرکے دیوار سے لگاکر باقیوں کو کھلی چھوٹ دینا انصاف ہے؟ اگر یہ انصاف ہے تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے اس انصاف اور طریقہ کار کا۔ اب شریف فیملی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی ہے تو بہتر یہی ہوتا کہ اس درخواست کو فل کورٹ سنتا اور ابتدائی طور پر انہیں 30جولائی تک عبوری ضمانت دیکر انتخابات میں بھرپور شرکت کی آزادی دیتا۔ فل کورٹ کے سننے کے بعد اگر معاملہ سپریم کورٹ جاتا ہے تو سپریم کورٹ میں بھی فل کورٹ کو ہی اس د رخواست کی سماعت کرکے فیصلہ دینا چاہئے۔ اس طریقے سے فیصلوں کو کسی صورت کوئی چیلنج نہیں کرسکتا کیونکہ یہ پوری عدالت کا متفقہ فیصلہ ہوگااور کسی صورت نہ تو کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے گا اور نہ ہی عدلیہ مخالف بات کرنے والوں کو کوئی بات کرنے کا موقع مل سکے گا۔
اب اڈیالہ جیل میں قید شریف فیملی کے 3 افراد الیکشن مہم چلانا تو کجا اپنا ووٹ تک کاسٹ نہیں کرسکیں گے کیونکہ جب وہ جیل میں آئے تو پوسٹل بیلٹ کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ اس تمام طریقہ کار کا ن لیگ کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ شریف فیملی جس طرح قانون پر مکمل عملدرآمد کرکے خود کو سزا کیلئے پیش کرچکی ہے تو میاں صاحب کے اڈیالہ جانے کے بعد ن لیگ کی مقبولیت میں یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ جس طرح عمران خان بارہا کہتے ہیں کہ اب قوم میں شعورآچکا ہے تو واقعی قوم میں شعورآچکا ہے اور وہ ناانصافیوں اور جانبداری کو نہ صرف محسوس کررہے ہیں بلکہ ہر دوسرے شخص کا یہی موقف ہے کہ انتخابات میں مخصوص جماعت کو فتح یاب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ کیا اس طرز عمل کے بعد ہونیوالے انتخابات پر اعتراض کرنیوالے درست ہوں گے یا غلط؟ کیا پھر انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے دھرنوں کی اجازت ہوگی؟ غلط طرز عمل سے واپسی کے لئے اب بھی وقت ہے اور پولنگ سے قبل درست سمت کی طرف جانا بہت ضروری ہے۔