عوام اپنا مقدر تبدیل کرسکتے ہیں
تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے جب بھی اجتماعی طور پر اپنا مقدر تبدیل کرنے کی کوشش کی اللہ نے ان کو سرخرو کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے 1946ءکے انتخابات میں اپنے لیے علیحدہ وطن حاصل کرلیا اور ہندوﺅں کی بالادستی سے آزاد ہوگئے۔ سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے آزادی حاصل کرلینا اس امر کا ثبوت ہے کہ عوام جب چاہیں اپنا مقدر بدل سکتے ہیں۔ 1970ءکے انتخابات میں بھی عوام نے روایتی سیاسی برج پاش پاش کردئیے اور استحصالی طبقات کو شکست فاش دے دی۔ قرآنی اُصول ہمیشہ درست ثابت ہوا۔ جب بھی عوام نے جدوجہد کی اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید اور حمایت کی۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام لٹیرے سیاستدانوں کے جال میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ اللہ کے واضح احکامات کی کھلی نافرمانی کرتے ہوئے بار بار انہی اُمیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے بارے میں ان کا ضمیر بھی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کرپٹ، بددیانت، جھوٹے اور نااہل ہیں جبکہ اللہ کی منشا اور رضا یہ ہے ”مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت (صادق و امین) کے سپرد کرو“۔[58:4]
ووٹ قوم کی امانت ہے اسے بددیانت اُمیدوار کے سپرد کرکے عوام نہ صرف اللہ کو ناراض کرتے ہیں بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنا مقدر خراب کرلیتے ہیں۔ پاکستان کے اشرافیائی جمہوری انتخابی نظام میں صرف ووٹ کا حق ہی عام آدمی کو دیا گیا ہے جس کے درست استعمال سے ”سٹیٹس کو“ کمزور ہوسکتا ہے اور بامعنی بامقصد تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ شفاف انتخابات اور شفاف نمائندوں کے بغیر جمہوری سیاسی نظام مقتدر اور مستحکم نہیں ہوسکتا۔ دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بار بار تجربات کرنے اور اس کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود لوٹ مار کرنے والے سیاسی خاندانوں کو ہی ووٹ دیتے چلے آئے ہیں۔
ستر سال گزرنے کے بعد بھی عام آدمی کو صاف پانی میسر نہیں ہے جو زندہ رہنے کی بنیادی ضرورت ہے۔ آلودہ پانی پینے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر ہسپتال جاتے ہیں تو ان کو علاج کی مناسب سہولتیں فراہم نہیں ہوتیں۔ دوائیاں جعلی ہونے کی بناءپر بیماری طول پکڑتی ہے اور مریض زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ ستر سال میں شرح تعلیم سو فیصد ہونی چاہیئے تھی مگر سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ تسلط کی وجہ سے کسی حکومت نے تعلیم کی جانب توجہ نہیں دی۔ کروڑوں بچے آج بھی سکولوں سے باہر ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 2013ءکے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے کیمرے کے سامنے قوم کو حلف دیا کہ وہ اقتدار میں آکر تعلیمی بجٹ کو 4فیصد تک بڑھا دیں گے۔ان کو ووٹ دینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی ایک سیاسی لیڈر نے بھی نہ ہی وفاقی حکومت نے اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت نے تعلیم کے بجٹ کو 4فیصد تک کیا اور بجٹ کی یہ شرح 2فیصد تک ہی رہی بلکہ بعض صوبائی حکومتوں نے تو تعلیم کا بجٹ بھی سڑکوں اور شاہراﺅں پر خرچ کردیا۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل اور خرابیوں کی جڑ جہالت ہے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ روایتی سیاسی جماعتیں عوام کو ان پڑھ رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ان کی غلامی کرتے رہیں۔ کروڑوں عوام اپنے گھروں سے محروم ہیں۔ بارش سردی اور گرمی میں ان کا حال جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔بے روزگاری میں ہرروز اضافہ ہوتا جاتا ہے کیونکہ زراعت اور صنعت کی طرف کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ناکافی اور مہنگا ہے۔ عوام انصاف کے لیے عدالتوں میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ پولیس سیاسی مداخلت کی وجہ سے امن و امان قائم کرنے اور جرائم پر قابو پانے سے قاصر ہے بلکہ حکمران اشرافیہ جب چاہتی ہے پولیس کے ذریعے ”سانحہ ماڈل ٹاﺅن“ کرادیتی ہے۔ ہر شہری تشویشناک حد تک قرضوں کے شکنجے میں پھنس چکا ہے۔ اگر دو سو خاندان قوم کا سرمایہ چوری کرکے ملک سے باہر نہ لے جاتے تو پاکستان کبھی معاشی عدم استحکام کا شکار نہ ہوتا۔ کیا پاکستان کے عوام کا یہی مقدر ہے۔ ہرگز نہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی شہریوں کا اولین حق ہے۔
پاکستان کے عوام ووٹ لازمی دے کر اور موزوں اُمیدواروں کا انتخاب کرکے اپنا مقدر تبدیل کرسکتے ہیں۔ آزمائے ہوئے اُمیدواروں کو ایک بار پھر آزمانا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اس بار عوام کو کسی صورت کرپٹ اُمیدوار کا سہولت کار نہیں بننا چاہیئے اور اپنی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیئے اور اسے ہر صورت ترجیح دینی چاہیئے۔
پاکستان کے عوام 25جولائی کو اپنا ووٹ دینے سے پہلے سوچ لیں کہ اگر انہوں نے کرپٹ اُمیدوار کو ووٹ دیا تو وہ ”عادی مجرم“ ہر صورت میں ووٹ کی طاقت کو مزید کرپشن کے لیے استعمال کرے گا اور عوام کی دولت لوٹ کر ایک بار پھر پاکستان سے باہر لے جائے گا اور خدانخواستہ پاکستان کی سلامتی اور عوام کا اپنا مقدر دونوں خطرے میں پڑجائیں گے۔
اللہ کے حکم کے مطابق ووٹ برادری کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقویٰ یعنی پرہیز گاری کی بنیاد پر دیجئے۔ آپ کا مقدر آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ووٹ کا غلط استعمال کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا مقدر خراب نہ کیجئے۔ ووٹ شخصیات کے بجائے پاکستان کے قومی مفاد میں دیجئے۔ ہمیں اس اُمیدوار کو ووٹ دینا چاہیئے جو ہمارے ووٹ کی طاقت کو ہمیں یونین کونسل کی سطح پر مقتدر اور بااختیار بنانے کے لیے استعمال کرے۔ خاموش اکثریت جاگے اور ووٹ کا حق استعمال کرے وگرنہ جمہوریت کے نام پر اقلیت ان پر حکمرانی کرتی رہے گی اور واضح اکثریت اپنے حقوق سے محروم رہے گی۔
اگر خاموش اکثریت اس بار بھی نہ جاگی تو وہ آنے والی نسلوں اور اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی نے باہمی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو نامزد کیا۔ نگران وزیراعظم بھی انہی دو جماعتوں کے نامزد کردہ ہیں اس کے باوجود یہ جماعتیں الیکشن کی شفافیت کے بارے میں سوالات اُٹھارہی ہیں۔ پاک فوج کا انتخابات کے انعقاد میں کوئی آئینی کردار نہیں ہے اس نے تو صرف سکیورٹی کے لیے معاونت کرنی ہے۔ اس کے باوجود پاک فوج کے زیر کنٹرول ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ سیاستدانوں کا مخصوص گروہ پاک فوج پر الزام تراشی بھی کرتا ہے اور اس کی نگرانی میں انتخابات بھی کراتا ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے بے بنیاد افواہوں اور الزامات کی کھلی تردید کی ہے۔پاکستان سلامتی کے چیلنجوں سے نبرد آزماہے۔ ان حالات میں اگر پاک فوج کو عوامی سطح پر متنازعہ بنایا گیا تو ریاست کو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایسی خبروں کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینا چاہیئے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم چیف جسٹس(ر) ناصر الملک کا آئینی فرض ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں اور الزامات کے بارے میں پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیں۔ الیکشن کمشن پاکستان نے سیاسی جماعتوں کے ان لیڈروں کے خلاف اقدام اُٹھایا ہے جنہوں نے عوامی جلسوں میں اشتعال انگیز زبان استعمال کی ہے۔
یہ قابل ستائش اقدام ہے الیکشن کمشن کو اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کا بھرپور ، موثر اور نظر آنے والا استعمال کرنا چاہیئے۔چیف الیکشن کمشنر تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کرکے ان کو الیکشن کے بارے میں تیاریوں کے سلسلے میں بریفنگ دیں اور ان کو یقین دلایا جائے کہ انتخابات کا سارا عمل مکمل طور پر شفافیت کے ساتھ ہورہا ہے تاکہ بعض ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کے بے بنیاد الزامات سے انتخابات متنازعہ نہ بن سکیں اور پاکستان کی دشمن ایجنسیاں ان الزامات کو اپنے مذموم مفادات کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔ پاکستان کے انقلابی اور عوامی شاعر حبیب جالب اپنی قبر سے بھی سیاسی لیڈروں سے عوام کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔
روٹی کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دلا
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ