ہفتہ‘ 7ذیقعد 1439 ھ ‘ 21 جولائی 2018ء
کابینہ کمیٹی کی نواز شریف ، مریم ، صفدر ، زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کےلئے سفارش
نیت پر شبہ گناہ ہے، کا بینہ کمیٹی نے یہ سفارش کی ہے تو حسن ظن کا تقاضا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ یہ سفارش ملک کے ”وسیع تر مفاد“ میں ہی کی گئی ہوگی۔ جیسا کہ نگران حکومتیں اب تک ، نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی اور ان کے استقبال کے لئے جانے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے میں کوئی کمی نہیں آنے دے رہیں ۔ اعتراض کیا گیا کہ یہ کیسے ”دہشت گرد“ ہیں جن کے ہاتھوں گملا تک نہیں ٹوٹا، جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ درست، کہ گملا نہیں ٹوٹا لیکن پھر بھی ریاست کے وسیع تر مفاد کا ”تقاضا “ یہی ہے، جو پولیس نے نگرانوں کی ہدایت پر پورا کیا۔ نگرانوں کو اپنے ”فرائض “ ادا کرتے رہنا چاہئیں۔ اعتراضات اٹھانے اور اعتراض کرنے والوں کی پرواہ نہ کریں ۔ کہ نواز شریف، مریم اور صفدر تو اڈیالہ ایسی جیل میں مقید ہیں جس کی سکیورٹی کی قسم کھائی جا سکتی ہے کہ یہاں سے کسی کا فرار ہونا ممکن ہی نہیں ۔ مگر نگرانوں کو یقین نہیں۔ حالانکہ جنہیں ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش ہو رہی ہے یہ ایسے لوگ ہیں کہ جیل کے دروازے کھول دئیے جائیں پہرے دار غائب ہو جائیں تو بھی یہ نکل بھاگنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔زلفی بخاری البتہ آزاد ہیں، اگر وہ نہ بھی آزاد ہوں تو جن لوگوں سے ان کی دوستی ہے ان کے نام سے ویسے ہی بھاری قفلوں والے دروازے بھی بڑی آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ انہوں نے عمر ے پہ جانا تھا، ائیر پورٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ نام ای سی ایل میں ہے۔ لیکن پھر ایک کال کی گئی اور ائیر پورٹ کا ہر چھوٹا بڑا بچھ بچھ جانے لگا ۔
٭....٭....٭....٭
بختاور بھٹو کا عمران خان کو مشورہ :سیاست سے ریٹائر ہو کر کھیلوں کی کوچنگ کریں
بختاور بھٹو کا یہ مشورہ نہیں ماناجائے گا، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ کھیل کود کے دن بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کی تیاری بہت پہلے سے شروع کر دی تھی، اس کے لئے انہوں نے بہت محنت کی ، کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم ہسپتال بنایا، یونیورسٹی بنائی۔ابتدائی اٹھان سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ دوسرا ایدھی بننے جا رہے ہیں، وہ بن بھی سکتے تھے، اگر اپنا رخ سیاست کی طرف نہ کرتے۔ سیاست میں لانے کےلئے مشرف نے مرشد کا کردار ادا کیا۔
پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اصولی سیاست کا مظاہرہ کیا انہیں سنگل لارجسٹ پارٹی تسلیم کرتے ہوئے خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کا موقعہ دیا، اگر ان کے مخالفین جوڑ توڑ کی سیاست کرتے تو یہ کے پی کے میں حکومت نہ بناپاتے۔ کچھ عرصہ ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کے انتظار کا عذاب جھیلا ، پھر قسمت نے یاوری کی اور پانامہ لیکس زلزلہ بن کر آگیا۔مسلم لیگ ن کے قائد، پر پانامہ لیکس کیس کا بننا تھا کہ اقتدار کی طرف ان کے سفر میں تیزی آ گئی دیکھتے ہی دیکھتے سارا ماحول سازگار ہوتا گیا۔ اسلام آباد کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی گئیں۔ اب جب کہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا والا معاملہ ہے تو بختاور بھٹو کا یہ مشورہ خاصا بعد از وقت لگتا ہے۔ یاروں نے گھوڑا ”پیڑ“ دیا ہے، 25 جولائی کو کوئی انہونی نہ ہو گئی تو باگیں ان کے ہاتھ میں ہوں گی۔
٭....٭....٭....٭
عمران کو تقریر کے دوران مائیک سے کرنٹ لگ گیا‘ خطاب جاری رکھا۔
چند روز قبل پی ٹی آئی کے ابرارالحق کو مائیک نے ہلکا سا جھٹکا دیا تھا‘ انہوں نے گھبرا کر مائیک پھینک دیا تھا۔ اب پارٹی کے چیئرمین بھی اسکی شرارت سے نہ بچ سکے۔ پی ٹی آئی کو تحقیق کرنی چاہیے کہ اسکے جلسوں کا الیکٹریشن کسی مخالف پارٹی سے تو تعلق نہیں رکھتا۔ انتخابات کی اس گہماگہمی میں آجکل جتنا کرنٹ پی ٹی آئی میں پایا جاتا ہے‘ اسکی تاریں کسی خفیہ ٹرانسفارمر سے ملی نظر آتی ہیں۔ ”پارٹی مہربانوں “ کو ہتھ ہولا رکھنا چاہیے ورنہ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک خودکش حملہ آور کی طرف سے اپیل کی گئی کہ جناب دھماکے میں بارود کم بھرا کرو‘ میں جنت سے آگے نکل آیا ہوں۔
خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ کرنٹ لگنے کے باوجود خطاب کرنے سے نہ رکے بلکہ قوم کو شدومد کے ساتھ اپنا منشور بتاتے رہے۔ سٹیج کے گرنے کے واقعات بھی اکا دکا سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن گرنے والوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ....ع
”گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں“
البتہ یہ احتیاط ضرور برتنی چاہیے کہ زبان سے نہ گرا جائے کیونکہ جس طرح مخالفوں کو نیچا دکھانے کیلئے غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے‘ اس سے نہ صرف اس کا امیج خراب ہوتاہے بلکہ ملک کی بدنامی الگ ہوتی ہے۔بہرحال ایسی زبان سے گریز ہی بہتر ہے بالخصوص اس زبان کی موجد پارٹی کو اپنی اداﺅں پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
٭....٭....٭....٭
نوازشریف کے ساتھ گلے ملنے پر اڈیالہ جیل کے ہیڈوارڈن کا تبادلہ
خبروں میں اس ”عاقبت نااندیش“ کا نام نہیں بتایا گیا، لیکن اسے شکر کرنا چاہئے کہ اسکا یہیں کہیں آس پاس تبادلہ ہو گیا، معطل یا برطرف نہیں ہوا۔ اگر پرانا زمانہ ہوتا تو اسے اس ”جرم“ کی پاداش میں حبس دوام بعبور دریائے شور (کالا پانی) کی سزا ہو سکتی تھی۔ کتنا نادان تھا کہ جیل میں نوازشریف کو گلے لگانے کے سنگین جرم کا ارتکاب کر بیٹھا۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ چند روز پہلے نوازشریف اور مریم نواز جب لندن سے لاہور پہنچے تو ان کے استقبال کے لئے جانے والوں پر کیا گزری۔
بزرگ سیاستدانوں کو ضعیفی کے باعث جو تنکا نہیں توڑ سکتے، دہشت گردی کے الزام میں دھر لیا گیا۔ بھلے مانس! ایسے پرآشوب دور میں دوستی کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے ملنے سے کنی کترا جاتے ہیں۔ اگر جذبات نے بہت ہی زور مارا تھا تو شربت صندل یا بزوری پی لیتے‘ سکون مل جاتا۔ ویسے ایک قاری کا تبصرہ تھا کہ ہیڈ وارڈن مرد نکلا یہ جانتے ہوئے کہ اس ”سنگین“ جرم کی سزا کیا ہو گی، میاں صاحب کو گلے لگا لیا۔
٭....٭....٭