اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کا متنازعہ بل منظور
اسرائیل کی پارلیمان نے ایک متنازعہ بل منظور کیا ہے جس میں ملک کو خصوصی طور پر یہودی ریاست‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہودیوں کی قومی ریاست‘ نامی بل عربی کے بطور سرکاری زبان کے درجے کو کم کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہودی آباد کاری کی پیش قدمی قومی مفاد میں ہے۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مکمل اور متحدہ‘ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔
عالمی طاقتوں کی سینہ زوری سے فلسطین کے ٹکڑے کرکے اسرائیلی ریاست تشکیل دی گئی۔ اسکے بعد اسرائیل غنڈہ گردی سے اپنے مقبوضات میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ اعلان بالفور کے بعد یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ برطانیہ اور فرانس نے دوسری جنگ عظیم میں سرمایہ دار یہودیوں سے اس وعدے پر مالی معاونت حاصل کی کہ فتح کی صورت میں یہودیوں کیلئے الگ ریاست قائم کی جائے گی۔ دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسانے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت مقامی یہودیوں کی تعداد صرف آٹھ ہزار تھی۔ آج یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے جبکہ اسرائیل میں 20فیصد عرب مسلمان اور عیسائی بھی موجود ہیں۔ عرب یہودی بھی تھوڑی تعداد میں اسرائیل میں پائے جاتے ہیں۔ ان عربوں کیلئے اسرائیل کو یہودی ریاست کا درجہ دینا ناقابل قبول ہے جس کا اظہار انہوں نے شدت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کیا ہے۔ انہوں نے 62کے مقابلے میں 55ووٹوں سے مذکورہ بل کی مخالفت کی ہے اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب ہے۔ ٹرمپ نے یہاں بھی اپنی بددماغی کا اظہار کرتے ہوئے القدس میں امریکی سفارتخانہ قائم کرایا جس سے اسرائیل نے شہ پا کر القدس کو اپنا مستقل دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا اور اب بل میں اسے بھی مستقل حیثیت دیدی ہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں پر ہمیشہ ظلم کیا۔ نہتے فلسطینیوں نے اپنی بقا کیلئے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ ضرور کیا۔ ان کو عرصہ تک عرب ممالک کی کھلی حمایت رہی۔ تاہم عرب ممالک کی مصلحتیں بھی آڑے آتی رہیں۔ اب تو فلسطینی خود کو بے یارومدد گار سمجھتے ہیں۔ آج او آئی سی کو متحد اور فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ہو کر اسرائیل کی بربریت کو روکنا اور فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کیلئے بھرپور کوشش اور عالمی سطح پر کردار دا کرنا ہوگا ورنہ فلسطینیوں کو یہودی صفحہ ہستی سے مٹانے سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔