سکیورٹی ادارے اپنی توجہ سکیورٹی انتظامات پر مرکوزرکھیں
آرمی چیف اور نیکٹا سربراہ کی سکیورٹی خطرات پر مختلف آراءاور چمن دہشتگردی
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاک فوج الیکشن کمیشن کے ضابطہ¿ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے عام انتخابات میں معاونت کریگی۔ اس سلسلہ میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز آرمی الیکشن سپورٹ سنٹر راولپنڈی کا دورہ کیا جہاں انہیں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے کے پلان پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے آرمی چیف نے ہدایت کی کہ عوام کو جمہوری حق کے آزادانہ استعمال کیلئے انتخابات میں محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے اور اس کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج ضابطہ¿ اخلاق اور دیئے گئے مینڈیٹ میں الیکشن کمیشن سے تعاون کیلئے پرعزم ہے‘ اس سلسلہ میں دوسرے سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر مکمل ہم آہنگی سے کام کیا جائیگا۔ دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر مختلف شہروں کیلئے تھریٹ الرٹس کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس طرح کا پراپیگنڈہ خوف و ہراس پھیلانے کی مذموم کوشش ہے‘ شہری اس قسم کی جعلی کالز اور پراپیگنڈہ پر نظر رکھیں۔ انکے بقول آئی ایس پی آر کی جانب سے ایسے کوئی تھریٹ الرٹ جاری نہیں کئے گئے۔ شہری جعلی خبروں سے خود کو بچائیں۔
علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہونگے اور الیکشن سے قبل قوم دہشت گرد حملوں سے خوفزدہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوری عمل جاری رہے گا۔ اسکے برعکس نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان نے انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سیکورٹی خدشات ہیں۔ فضل اللہ مارا گیا مگر نورمحسود نے ٹی ٹی پی کی کمان سنبھال لی ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ انکے بقول تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خطرہ ہے اور ہمیں کالعدم لشکر جھنگوی‘ جماعت الاحرار اور داعش سے بھی تھریٹس آئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز سینٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ کے خصوصی اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خطرہ ہے اور اس حوالے سے اب تک 65 تھریٹ الرٹس آچکے ہیں جبکہ انکے پاس ایم کیو ایم لندن کی طرف سے بھی ایک تھریٹ الرٹ ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کومبنگ اپریشن کرنے چاہئیں جبکہ اضلاع اور تھانوں کی سطح پر کوآرڈی نیشن کمیٹیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں جی ایچ کیو کے نمائندے نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاک فوج کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم صرف الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان بہتر رکھنے کیلئے کام کررہے ہیں اور فوج کسی سیاست دان کی سکیورٹی کی براہ راست ذمہ داری نہیں لے رہی۔ ملک بھر میں پولنگ سٹیشنوں پر 3 لاکھ 71 ہزار جوان تعینات ہونگے۔ ہم نے بلوچستان میں ضرورت کے مطابق فوج تعینات کی ہے۔
ملک میں آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف اور پرامن انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری بلاشبہ الیکشن کمیشن اور نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے۔ اس کیلئے بنیادی انتظامات بہرصورت الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتے ہیں جبکہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور انکے ماتحت انتظامیہ اور سکیورٹی کے اداروں نے اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی ہر ممکن معاونت کرنا ہوتی ہے۔ اگرچہ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے کسی قسم کے تھریٹ الرٹس جاری کرنے کی تردید کی گئی ہے تاہم ملک میں انتخابات کا عمل شروع سے اب تک سکیورٹی خطرات کی زد میں ہے۔ بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے میں سیاست دانوں اور انتخابی امیدواروں کو باقاعدہ ٹارگٹ کرکے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو پرامن انتخابی عمل سے مایوس کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔گزشتہ روز چمن بلوچستان میں بھی سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو ٹارگٹ کرکے موٹرسائیکل پر نصب بم کا ریموٹ کے ذریعے دھماکہ کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسکے پیش نظر انتخابات کے پرامن ماحول میں انعقاد کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پشاور‘ مستونگ اور مردان دہشت گردی میں جس طرح مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جو اپنی اپنی پارٹی کے نامزد انتخابی امیدوار بھی تھے باقاعدہ ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی زد میں لایا گیا‘ وہ پولنگ والے دن تک کے دہشت گردوں کے عزائم کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ مستونگ دہشت گردی میں بلوچستان عوامی اتحاد کے سراج رئیسانی سمیت دو سو کے قریب افراد کی شہادتوں سے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پشاور خودکش حملے میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی اپنے 22 کارکنوں سمیت شہادت سے بھی دہشت گردوں کی جانب سے ملک میں انتخابی فضا کو خون آلود کرنے کی وارننگ مل گئی تھی جسے دہشت گردوں نے مردان میں جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے اکرم خان درانی کو ٹارگٹ کرکے مزید تقویت پہنچائی۔ اب چمن میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو ٹارگٹ کرکے بم دھماکہ کیا گیا ہے تو یہ اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ دہشت گرد خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے ملک میں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔
اگر نیکٹا کے سربراہ کے بقول ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین دہشت گردوں کے ہدف پر ہیں جس کیلئے مختلف دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے تھریٹ الرٹس مل بھی چکے ہیں تو انتخابی عمل کے دوران پولنگ کے اختتام تک قومی سیاسی قائدین اور انتخابی امیدواروں کی زندگیوں کے تحفظ کیلئے سکیورٹی اداروں کی جانب سے ہر قسم کے انتظامات بروئے کار لانا ضروری ہوگیا ہے۔ اگرچہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ پاک فوج کی جانب سے الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے انتخابات میں محفوظ ماحول کی فراہمی یقینی بنائی جائیگی تاہم پاک فوج کے نمائندے نے سینٹ کی داخلہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ کہہ کر سیاست دانوں کو اپنی سکیورٹی کے انتظامات خود کرنے کا عندیہ دے دیا ہے کہ پاک فوج کسی بھی سیاست دان کی سکیورٹی کی براہ راست ذمہ داری نہیں لے رہی۔
اگر آرمی چیف انتخابات میں محفوظ ماحول کی فراہمی کی یقین دہانی کرا رہے ہوں اور اسکے برعکس پاک فوج کے نمائندے کی جانب سے سیاست دانوں کی سکیورٹی کی براہ راست ذمہ داری نہ لینے کا عندیہ دیا جارہا ہو تو اس سے انتخابی عمل میں سکیورٹی کے معاملہ میں غیریقینی کی فضا ہی مستحکم ہوگی۔ اگر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے قائدین امن و امان کی ایسی مخدوش صورتحال میں بھی اپنی زندگیاں داﺅ پر لگا کر شہر شہر جا کر انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور انتخابی ریلیوں کی قیادت کررہے ہیں تو یہ ایک طرح سے انکی جانب سے دہشت گردوں کو ٹھوس پیغام ہے کہ وہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی انکی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ اسی طرح قومی سیاسی قائدین بشمول میاں شہبازشریف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردی کے لاحق خطرات کو اپنے پاﺅں کی زنجیر نہ بنا کر اور ایک ایک دن میں چار چار پبلک جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کرکے ملک کے سکیورٹی اداروں کو بھی یہ ٹھوس پیغام دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں انکے شانہ بشانہ ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں انتخابی عمل ہرگز سبوتاژ نہیں ہونے دینگے تو ہمارے سکیورٹی اداروں کو انکی زندگیوں کے تحفظ کے بہرصورت تمام تقاضے نبھانے چاہئیں اور انتخابی عمل کے دوران امن و امان کی فضا یقینی بنانے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ انتخابات اور پولنگ سے متعلق دوسرے تمام انتظامات الیکشن کمیشن متعلقہ انتظامی مشینری کے ذریعے کرتا رہے گا۔ ایسے معاملات سے محض زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ عملی طور پر پاک فوج کا کسی قسم کا سروکار یا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آج انتخابی عمل میں شریک اکثر سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو انتخابات کی شفافیت کے بارے میں تحفظات ہیں اور وہ ایک مخصوص پارٹی کیلئے انتخابی میدان میں گرین سگنل ملنے کی شکایات ریکارڈ پر لا رہے ہیں تو یقیناً بعض محرکات کی بنیاد پر ہی سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت کو ایسی شکایات پیدا ہوئی ہیں جبکہ ایسے ماحول میں انتخابات کا آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد مشکوک بنے گا تو اس سے ملک میں سیاسی انتشار‘ بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہونا بھی فطری امر ہوگا۔ یہی وہ صورتحال ہے جس سے ہمارے دشمن بھارت کو دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا نادر موقع ملتا ہے۔
آج بدقسمتی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ایسی ہی فضا ہموار ہوتی نظر آرہی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد اور انکے سرپرست و سہولت کار کسی قومی قائد کو ٹارگٹ کرکے ملک میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کرینگے تو اس سے انتخابات کے پرامن انعقاد کا تصور ہی مفقود ہو جائیگا۔ چنانچہ اس صورتحال میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے سکیورٹی ادارے انتخابی عمل میں صرف سیکورٹی انتظامات پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور کسی دوسری ذمہ داری کو ہرگز قبول نہ کریں بصورت دیگر سارا انتخابی عمل ہی مشکوک ہو جائیگا جس کے باعث قوم سے انتخابی نتائج تسلیم کرانا بھی ناممکنات میں شامل ہو جائیگا۔ نگران حکمرانوں اور الیکشن کمیشن کو اپنے کسی عمل یا اقدام سے کسی قسم کی جانبداری کا تاثر بہرصورت پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔